مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گزشتہ دو دہائیوں میں پہلی مرتبہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو زبردست شکست ہوئی ہے اور اپنی پہلی پوزیشن کھو کر ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے ترکی کی دوسری پارٹی بن گئی ہے۔
ترکی کے بلدیاتی انتخابات ختم ہو گئے ہیں اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور اردگان کی حکومت کے دعوؤں کے برعکس عوام نے ایک بار پھر حکمران جماعت کے میئرز پر اعتماد کرنے سے انکار کر دیا۔
ترک عوام نے گزشتہ 20 سالوں میں سب سے کم ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا اور کل کے انتخابات میں 77 فیصد حصہ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ مہنگائی، غربت اور حکومت اور حکمران جماعت کی کارکردگی سے عدم اطمینان، انتخابات میں عوام کی کم شرکت کے اہم ترین عوامل تھے۔
انتخابات کے اس راونڈ میں اپوزیشن کی جیت ایک سرپرائز تھی اور اب صورتحال اردگان اور ان کی کابینہ کے حق میں نہیں ہے۔ کیونکہ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریتی نشستیں ہونے کے باوجود انقرہ اور استنبول اور کئی دوسرے اہم شہروں میں اس نے بلدیاتی اختیارات اپوزیشن کے حوالے کر دئے ہیں۔
انقرہ، استنبول، ازمیر، انطالیہ، مرسین اور دیگر کئی صوبوں میں اردگان کی پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بھاری شکست نے پیپلز ریپبلک پارٹی کو ترکی کی سب سے پرانی پارٹی کے طور پر ایک بار پھر اپنے کو سیاسی میدان میں منوانے اور حکمران جماعت کو چلتا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
اردگان کی پارٹی زوال کے راستے پر
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو در اصل مغرب پسند اسلامسٹ طلباء کے ایک گروپ نے تشکیل دیا۔ یعنی نجم الدین اربکان کے وہی جدیدیت پسند طلبہ جو اپنے لیڈر کے سیاسی نقطہ نظر کے برعکس اسلام کی لبرل تعبیر پر اصرار کرتے تھے۔ عبداللہ گل، رجب طیب اردگان، بلینٹ آرانچ جیسے لوگوں کی قیادت میں اس گروپ نے اربکان کی صفوں سے علیحدگی کے بعد 2001 میں ایک نئی پارٹی کی بنیاد رکھی اور 2002 میں اکثریت حاصل کر کے اکیلے ہی حکومت بنائی۔
مذکورہ پارٹی گزشتہ 22 برسوں سے برسراقتدار ہے اور ’’ملک کی پہلی جماعت‘‘ کے خطاب پر فائز ہے۔ لیکن اب پچھلی دو دہائیوں میں پہلی بار جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اپنی پہلی پوزیشن کھو کر دوسرے درجے پر آچکی ہے۔
اس کے برعکس "حزب جمہوری خلق" بلدیاتی انتخابات میں عوام کے 37.74% ووٹ حاصل کرکے پہلے نمبر پر رہی جب کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی 35.49% ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔
دریں اثنا، 2019 کے انتخابات میں ترک عوام کے ووٹوں کا 43% اردگان کی پارٹی کو اور 26% ووٹ پیپلز ریپبلک پارٹی کو ملا۔
کل کے الیکشن میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 505 بلدیاتی سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، لیکن 2019 میں اس نے 818 میونسپل سیٹیں حاصل کر لی تھیں!
ترکی کے اکیاسی صوبوں کی انتخابی صورت حال کچھ یوں ہے:
1۔ ترکی کے 81 صوبوں میں سے 30 میٹروپولیٹن ہیں، جن کا بجٹ اور مراعات زیادہ ہیں، اور وہاں جیتنا تمام جماعتوں کے لیے اہم ہے۔
ترکی کے 30 بلدیوں میں سے 14 میں پیپلز ریپبلک پارٹی جیت گئی، جب کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی 12 بلدیات میں سیٹیں جیتیں، 3 بلدیات اردگان کی مخالفت کرنے والے کردوں کی تھیں، اور 1 بلدیہ نجم الدین کی نئی قائم کردہ پارٹی کو تفویض کی گئی۔
2. صوبائی دارالحکومت کی بقیہ 51 بلدیات میں سے صرف 12 شہر اردگان کے اتحادیوں کے پاس ہیں، جب کہ 7 شہر کردوں کے پاس، 21 شہر پیپلز ریپبلک پارٹی کے پاس ہیں، اور 3 شہر دوسری جماعتوں کے پاس .
3۔ عوامی جمہوریہ پارٹی میں اردگان کے مخالفین کل 973 اضلاع میں سے 337 اور 272 شہروں میں سے 48 جیتنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ترک تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیپلز ریپبلک پارٹی کی قیادت سے کمال کلیک دار اوغلو کے استعفے اور اوزگور اوزیل نامی نوجوان سیاست دان کو یہ حساس ذمہ داری سونپنے نے اس پرانی پارٹی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ اوزیل نے وسیع پیمانے پر پارٹی کی مضبوطی قائم کر رکھی ہے۔
اردگان کو دو بڑے چیلیجز کا سامنا
اب اردگان کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے:
1۔ انہیں ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے اور گزشتہ 10 ماہ کے اندر یعنی ان کی تیسری مدت صدارت کے دوران ڈالر 20 لیرا سے 32 لیرا تک جا پہنچا ہے اور غربت اور مہنگائی نے لاکھوں ترک شہریوں کو پریشان کر رکھا ہے۔
2. بلدیاتی انتخابات میں شکست کھا کر دوسرے درجے پر آچکی ہے۔ جس سے پارٹی کی قانونی حیثیت اور اعتبار عملی طور پر چیلنج کا شکار ہوا ہے۔
اردگان کے اتحادی ایسے حالات میں انتخابات میں ہار گئے جب حکمران جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں کی جیت کے لیے تمام سرکاری وسائل اور سہولیات استعمال کی گئیں اور ترکی کے کئی صوبوں میں ہزاروں فوجی دستوں نے قانونی رول کے برعکس بیلٹ بکس میں اکپارتی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالا۔
دریں اثنا، انتخابی عمل کے دوران، استنبول اور انقرہ میں اردگان کی کابینہ کے 17 وزراء نے درجنوں عوامی دورے کر کے عوام سے کہا کہ وہ اپوزیشن کو ووٹ نہ دیں۔ لیکن ان اقدامات اور کنونس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور اکپارٹی کو اپنی 23 سالہ تاریخ میں سب سے بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بھاری شکست ترکی میں سیاسی پیش رفت کے عمل کو کس حد تک متاثر کرے گی۔