مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: یمن میں گزشتہ سال کے اہم ترین واقعات میں سے ایک سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کا انعقاد تھا۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں بات چیت ہوتی رہی ہے لیکن صنعاء اور ریاض نے براہ راست بات چیت نہیں کی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران فریقین کے درمیان براہ راست اور مسلسل مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں کامیابیوں اور کمزوریوں کی ایک ملی جلی سی صورت حال رہی جس کا اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے۔
یمن میں جنگ کے خاتمے کے تین اہم مواقع
یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے پچھلے دو سالوں میں تین ابتدائی نکات اور مواقع پر غور کیا جا سکتا ہے: اپریل 2022، مارچ 2023 اور اپریل 2024۔
اپریل 2022 میں اقوام متحدہ کی ثالثی سے ریاض اور صنعاء نے دو ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا جس میں دو مرتبہ مجموعی طور پر 4 ماہ کی توسیع کی گئی تھی۔
اگرچہ اقوام متحدہ کی طرف سے طے شدہ جنگ بندی اکتوبر 2023 میں ختم ہو گئی تھی، لیکن کم و بیش رعایت کی گئی تھی اور تشدد بڑی حد تک کم ہو گیا تھا۔
مارچ 2023 اس لیے بھی اہم تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان 7 سال بعد دوطرفہ تعلقات کی بحالی کا معاہدہ ہوا تھا اور اس کا براہ راست اثر یمن کی جنگ پر بھی پڑا ہے۔
اپریل 2024 میں، ایک سعودی وفد نے انصار اللہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے یمن کے دارالحکومت صنعا کا سفر کیا۔ سعودی وفد کے دورہ صنعاء کے دوران یمن کی سیاسی کونسل کے سربراہ مہدی المشاط اور یمن میں سعودی سفیر محمد الجابر سعودی نے ملاقات کی۔ 8 سال کی جنگ کے بعد سعودی وفد کا صنعاء کا یہ پہلا دورہ تھا۔ مزید برآں صنعاء حکومت کے وفد نے ریاض کا سفر کیا اور سعودی حکام سے ملاقات اور گفتگو کی۔
یمن اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات؛ آٹھ سالہ جنگ میں ایک اہم پیش رفت
یمن کا بحران سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان سب سے اہم تنازعات میں سے ایک تھا جو دونوں ممالک کے درمیان چین کی ثالثی سے پہلے ہوا تھا۔ سعودی عرب ایران کے ساتھ تعلقات کے ذریعے یمن کی خود ساختہ دلدل سے نکلنا چاہتا تھا، لیکن ایران کا موقف تھا کہ یمنی خود فیصلہ کریں گے۔
اس سنگین اختلاف پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تہران اور ریاض کے درمیان بیجنگ معاہدے میں یمن کا مسئلہ براہ راست زیر بحث نہیں آیا۔ اس کے باوجود ایران اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے نے یمن کے عسکری اور سیاسی منظر نامے پر کافی اثرات مرتب کیے ہیں۔
ایک اہم ترین اثر یہ تھا کہ سعودی عرب نے انصار اللہ کو تسلیم کر لیا۔ یمن کے سیاسی منظر نامے سے انصاراللہ کو ایک غیر رسمی کھلاڑی کے طور پر ختم کرنے کے مقصد سے جنگ شروع کرنے والا سعودی عرب آٹھ سال بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ انصار اللہ کی رسمی حیثیت کو تسلیم کرے۔
انصار اللہ نے سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات میں ایک آزاد اور مقابل فریق کے طور پر کردار ادا کیا اور اپنے مطالبات و مطالبات سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔
بین الاقوامی کرائسس گروپ کی یمنی محقق وینا علی خان نے کہا کہ اپریل میں صنعاء میں سعودی سفیر کے دورے کے دوران، انہوں نے اپنے حوثی اور عمانی ہم منصبوں سے ملاقات کی۔ سفیر محمد بن سعید الجابر کو حیرت ہوئی کہ حوثی اسے کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں تھے اور وہ وہاں سے خالی ہاتھ چلے گئے۔
صنعاء ریاض مذاکرات کا مرکزی ایجنڈا
سعودیوں کے ساتھ مذاکرات میں یمنیوں نے پانچ اہم مطالبات اٹھائے: یمنی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی، یمن سے تمام غیر ملکیوں کا انخلا، تمام قیدیوں اور مریضوں کا تبادلہ اور صنعاء کے لیے انسانی امداد کو دوبارہ کھولنا، یمن کے ہمہ گیر محاصرے کا مکمل خاتمہ اور جنگی نقصانات کا ازالہ۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے ایک سال بعد بھی یمنیوں کا دعویٰ ہے کہ صنعاء ریاض مذاکرات میں قیدیوں کے تبادلے( وہ بھی مکمل نہیں ہو) کے علاوہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
سعودی عرب نے یمنی ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن ایک شرط رکھی جسے صنعاء کی حکومت نے قبول نہیں کیا۔ اسی تناظر میں یمن کی سپریم سیاسی کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے کہا: سعودی عرب یمنی تیل اور گیس کی آمدنی کو سعودی عرب کے نیشنل بینک کو منتقل کرنے کے بدلے میں یمنی ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا چاہتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یمنی تیل کی آمدنی کو لوٹنا اور یمنیوں کو خود ان کے پیسوں سے خیرات دینا ہے۔
محاصرہ اٹھانے کے باب میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی البتہ بعض تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق جزوی پیش رفت ہوئی ہے۔
صنعا کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے فروری 2024 میں کہا: "صنعا ٹیم اور سعودی حکام نے ملاقات کی جس میں یمن بحران کے روڈ میپ کو درپیش سب سے اہم رکاوٹوں کو عبور کیا اور یمنی وفد نے انسانی بنیادوں پر معاملے کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جس میں کراسنگ، بندرگاہوں اور سڑکوں کو دوبارہ کھولنا شامل ہے اور یہ مسئلہ سیاسی مذاکرات سمیت دیگر معاملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
جنگی تاوان یا معاوضے کے معاملے میں سعودی عرب نے یمنیوں کو کوئی ضمانت نہیں دی ہے۔ البتہ سعودیوں فنڈ ریزنگ کی تجویز دی جس کا مقصد عطیات کی صورت میں مدد کرنا تھا۔ جسے یمنیوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم عطیہ کو قبول نہیں کرتے۔
یمنیوں نے فنڈ ریزنگ کی تجویز کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سعودیوں نے ہم پر آٹھ سال تک جنگ مسلط کی، ہمارا پورا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا۔ لہذا اب انہیں ہونے والے تمام نقصانات کو پورا کرنا چاہیے۔
یمنیوں کے لیے مذاکرات کے کامیاب نتائج
اگرچہ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں یمن کے مطالبات کو ابھی تک عملی شکل نہیں دی گئی ہے لیکن ان مذاکرات میں صنعاء کی حکومت کے لیے اہم کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ سب سے اہم سیاسی کامیابیوں میں سے ایک سعودی عرب اور یہاں تک کہ بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے انصاراللہ کو رسمی طور پر تسلیم کرنا تھا۔
ایک اور اہم کامیابی یہ تھی کہ انصار اللہ یمن کے سیاسی منظر نامے پر ایک آزاد اور زبردستقوت کے طور پر نمودار ہوئی۔ انصار اللہ نے یہ بھانپ لیا ہے کہ اگر سعودی عرب فوجی طاقت کی کامیابی سے مطمئن ہو جاتا اور اس ملک کے لیے عسکری کاروائیوں آپشن کامیاب ہوتا تو وہ آگے بڑھ کر یمن کا کام تمام کر دیتا اور انہیں انصار اللہ کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
انصاراللہ کے لیے ایک اور اہم کامیابی یہ تھی کہ یمن کے ساتھ جنگ کا سلسلہ روک دیا گیا۔ اب انصار اللہ سعودی عرب سے " جنگی تاوان کی طالب" ایک فریق قوت ہے۔
ایک اور اہم کامیابی یہ تھی کہ جنگ بندی نے صنعاء کو اپنی عسکری صورتحال کو منظم کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ مسئلہ 21 ستمبر 2023 کو یمنی مسلح افواج کی فوجی پریڈ میں واضح طور پر سامنے آیا۔
نتیجہ
یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ 8 سالہ جنگ کے دوران یمن کی انصار اللہ عوامی حمایت کے ساتھ ایک بااثر طاقت کے طور پر ابھری۔ گزشتہ ایک سال کے اندر صنعاء اور ریاض کے درمیان متعدد مذاکرات کے دوران، انصار اللہ نے بھی اپنا سیاسی وزن دکھایا اور یمن کے سیاسی منظر نامے میں سب سے اہم کردار کے طور پر سامنے آئی۔ اگرچہ سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات میں انصار اللہ کے مطالبات ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں لیکن جنگ کے خاتمے نے انصار اللہ کو یمن کے ماحول میں اپنے آپ کو نئے سرے سے مضبوط بنانے کا موقع فراہم کیا۔