مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مصر کی نمائندہ یاسمین موسیٰ نے کہا: تل ابیب نے غزہ کے علاقے میں شہریوں کے قتل عام کے علاوہ انہیں محصور کرکے بھوکا رکھا ہے اور ان تک انسانی امداد بھی نہیں پہنچنے دے رہا۔ تل ابیب مغربی کنارے میں بھی اپنے ناجائز اقدامات کو جاری رکھے ہوئے ہے اور فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کرنے کے ساتھ ان کے خلاف آباد کاروں کے تشدد کی حمایت بھی کر رہا ہے۔
ہیگ کورٹ میں مصری نمائندے نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے دو ریاستی حل کی خلاف ورزی اور خطے میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے والی صہیونی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے اور آباد کاروں کی تعداد 750 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
جب کہ فلسطینیوں کو پچھلے 75 سالوں سے جبری نقل مکانی، اجتماعی اور وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ہمیشہ فلسطینی عوام سے حق خود ارادیت چھینتا ہے اور اس سلسلے میں تل ابیب کے غیر قانونی اقدامات کو روکنا ہوگا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل کو فلسطینی قوم کے خلاف اپنے نسل پرستانہ اور امتیازی اقدامات کے دائرہ کار میں وضع کئے گئے تمام قوانین و ضوابط کو منسوخ کرنا ہوگا۔
اس مصری جج نے صیہونی حکومت کی جارحیت کے بارے میں اقوام متحدہ کی خاموشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ خاموشی کب تک جاری رہے گی؟، آخر اسرائیل کی جارحیت کے اصل اسباب کی تحقیق کیوں نہیں کی جاتی؟
ہیگ کی عدالت کو چاہیے کہ وہ اپنی مشاورتی رائے جنرل اسمبلی کو بھیجے اور اس بات پر زور دے کہ اسرائیلی حکومت کا غاصبانہ قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
تمام ممالک کو اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کو مسترد کرتے ہوئے غزہ کے شہریوں کو انسانی امداد تک رسائی نہ دینے پر اس رجیم کی مذمت کرنی چاہیے۔