مہر خبررساں ایجنسی، انگریزی ویب سائٹ- مرضیہ رحمانی: امریکہ ان ممالک میں سے ایک ہے جس نے گذشتہ سالوں میں ہمیشہ صیہونیوں کے جرائم کی حمایت کی ہے اور صیہونی رجیم نے مغرب کی حمایت کی وجہ سے اپنے وحشیانہ جرائم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ جس کے ردعمل میں فلسطینی مزاحمتی فورسز کو طوفان الاقصی آپریشن کے ذریعے فیصلہ کن جواب دینا پڑا۔
مہر خبررساں ایجنسی نے سینئر امریکی تجزیہ کار "مارک گلین" کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے غزہ میں صیہونی حکومت کی فلسطینی عوام کے قتل عام کو حاصل حمایت اور واشنگٹن کی طرف سے جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بارے میں گفتگو کی۔
انہوں نے صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسلی تطہیر میں امریکہ کو شریک قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کے عوام پر وحشت ناک جرائم در اصل تل ابیب رجیم اور امریکی حکومت کی مشترکہ خواہش اور شیطنت ہے۔
انہوں نے کہا کہ نسل کشی ہزاروں سال سے صہیونیوں کی فطرت میں شامل ہے۔ امریکہ اور اسرائیل انسانی جسم کے دونوں پاوں کی طرح ہیں۔ دایاں پاوں حرکت کرتا ہے تو بایاں پاوں ساکن رہتا ہے اور جب بایاں آگے بڑھتا ہے تو دایاں ساکت رہتا ہے اس طرح پورا بدن آگے بڑھتا ہے
امریکی تجزیہ نگار نے اسرائیلی حکومت کو امریکہ کی وسیع سیاسی، اقتصادی اور فوجی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر واشنگٹن کی مالی، فوجی اور سیاسی امداد نہ ہوتی تو تل ابیب رجیم برسوں پہلے مٹ چکی ہوتی۔
انہوں نے امریکی صدر سمیت دیگر مغربی معاشروں میں اہم لوگوں پر اسرائیلی حکومت کے اثر و رسوخ کی وجہ بھی بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اثر و رسوخ ان خفیہ معلومات کی وجہ سے ہے جو یہ یہ ان لوگوں سے جمع کرتی ہے اور انہیں اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ صیہونی حکومت نے امریکہ سمیت مغرب کے ہر ملک کو دسیوں یا ممکنہ طور پر سیکڑوں ایٹمی ہتھیار اسمگل کئے ہیں کہا کہ صیہونی حکومت نے امریکہ اور مغرب کو ان ممالک میں ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکوں کی دھمکی دے کر انہیں غزہ میں اپنے شیطانی منصوبوں میں شامل ہونے پر مجبور کرتی ہے۔
گلین نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے میں اقوام متحدہ کی نااہلی کے بارے میں کہا کہ اقوام متحدہ ایک کاغذی شیر ہے جو مکمل طور پر امریکہ کے رحم و کرم پر ہے اور اسے اختیار اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب صیہونی حکومت عراق، لیبیا، سربیا وغیرہ جیسے ممالک کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اور ان ممالک کے خلاف فوجی جارحیت شروع کرنے سے پہلے ان جارحانہ اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے ایک اجلاس بلاتی ہے۔