مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا دورہ روس اور صدر پوٹن سے ملاقات عالمی ذرائع ابلاغ اور مبصرین کے درمیان موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
روسی یونیورسٹی کے ریسرچ سینٹر کے سربراہ لیونیڈ عیسیف نے مہر خبررساں ایجنسی کو اپنے خصوصی مراسلے میں صدر رئیسی کے دورہ روس کے حوالے سے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔
انہوں نے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ صدر رئیسی نے بہت ہی مناسب موقع پر روس کا دورہ کیا ہے۔
سعودی عرب اور عرب امارات کے حکام سے ملاقات کے بعد ایرانی صدر سے پوٹن کی ملاقات اس بات کی دلیل ہے کہ روس کی پالیسی میں بہت توازن ہے اور وہ مغربی ایشیا کے ممالک کو مساوی اہمیت دیتا ہے۔
ایران کی تجویز پر دونوں ممالک طویل المدتی تعاون کے معاہدے پر دستخط کرنے والے ہیں جس کے بعد روس ایران کے اتحادی کی حیثیت سے مزید اہمیت اختیار کرے گا۔
علاوہ ازین ایران یوریشیا اکنامک یونین میں شامل ہونے کے قریب ہے جس کے نتیجے تجارتی رکاوٹیں دور ہوں گی اور روس کے یوریشین ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات مزید بڑھیں گے۔ دونوں ممالک برکس کے مسائل پر بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں درحقیقت ایران کی برکس میں شمولیت کے بعد دونوں ممالک کے سربراہان کی یہ پہلی ملاقات ہے۔
ایران کی برکس میں شمولیت سے تمام اعضاء کو فائدہ ہوگا۔ ایران اور سعودی عرب کی شمولیت کے بعد برکس تیل کی پیدوار میں استحکام لانے میں اہم کردار ادا کرے گی اور برکس ممالک اوپیک پلس میں مزید فعال ہوں گے۔
ایران اور روس پابندیوں کو مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ کوششیں کررہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب دونوں کی برکس میں شمولیت سے باہمی تعلقات بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔
تہران اور ریاض کے درمیان بہتر تعلقات روس کے بھی فائدے میں ہیں کیونکہ روس مغربی ایشیا میں اپنے ان دو دوست ممالک کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات میں مزید اضافہ کرنا چاہتا ہے۔