اس بات سے قطع نظر کہ غاصب صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ کے ساتھ کیسا وحشیانہ سلوک کیا جائے گا، طوفان الاقصی آپریشن کے ذریعے حماس نے بین الاقوامی سطح پر اپنے سیاسی اور دیگر اہداف حاصل کرلئے ہیں۔ اس حملے کے بعد صہیونی حکومت اندرونی طور پر گہرے بحران میں مبتلا ہوجائے گی۔

مہر خبررساں ایجنسی_سیاسی ڈیسک؛ ہفتے کے حماس کی جانب سے ہونے والے اس حملے کی اہم خصوصیت اس کا اچانک اور توقع کے برخلاف ہونا تھا۔ یہودیوں کی عید کے موقع پر صہیونیوں کی جانب سے مسجد اقصی اور بیت المقدس کے مشرق میں تجاوزات کی شرح میں اضافہ ہوا تھا اسی طرح غرب اردن میں بھی فلسطینیوں کے خلاف صہیونیوں کے جرائم بڑھ گئے تھے۔ ان حالات میں صہیونی حکومت حماس اور دیگر مقاومتی تنظیموں کو مہار کرنے کے زعم میں مبتلا تھی اور غزہ سے اتنے بڑے ردعمل کا بالکل گمان نہیں تھا۔
سیف القدس جنگ کے بعد صہیونیوں نے فلسطینی تنظیموں مخصوصا سیاسی اور جہادی گروہوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی تھی جس میں ان کے زعم میں کسی حد تک کامیابی بھی مل گئی تھی علاوہ براین صہیونی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ محاصرے کی وجہ سے پیش آنے والے حالات اور شمالی کوریڈور کھولنے کے لئے حماس اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہورہی ہے۔

صہیونی خفیہ ادارے میدان جنگ میں ہمیشہ دشمنوں پر سبقت رکھنے کا اظہار کرتے تھے۔

فلسطینی قائدین کو شہید اور غزہ اور شام میں فضائی حملے کرکے ذرائع ابلاغ میں اس کا بہت چرچا کرتے تھے جس سے عام اسرائیلی اس وہم میں مبتلا ہوگئے کہ انٹیلی جنس کے میدان میں وہ دشمنوں پر برتری رکھتے ہیں جوکہ حقیقت کے بالکل برعکس تھا۔

صہیونی کے اس غلط تجزیے کی وجہ سے مقاومت کو سنہری موقع مل گیا کہ صہیونی حکومت پر تاریخی وار کرکے مسئلہ فلسطین کی تاریخ بدل دیں۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل کے اندر اور باہر اہم نتائج سامنے آئیں گے۔ غزہ میں آئندہ پیش آنے والے واقعات سے قطع نظر مقاومت کے لئے یہ نتائج بہت مفید ہوں گے۔

لبنان کے ساتھ ہونے والی 33 روزہ جنگ کی طرح ابتدائی طور پر صہیونی حکومت کے انٹیلی جنس اور دفاعی اداروں میں آنے والا بھونچال قابل دید ہوگا کیونکہ ان اداروں کو اتنے بڑے حملے کی بالکل توقع نہیں تھی جس میں ہزاروں کمانڈوز مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوکر ایک گھنٹے کے اندر سینکڑوں میزائل فائر کریں۔ صہیونی زمینی فوج نے غیرپیشہ وارانہ فوج ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے عقب نشینی اختیار کی اور بڑے فوجی افسران سمیت سینکڑوں صہیونی گرفتار کرلئے گئے۔ 

یہ حملہ نتن یاہو کی سیاسی زندگی کا خاتمہ ثابت ہوگا اور کئی سال اسرائیل میں سیاسی کھیل کھیلنے  کے بعد خفت کے ساتھ خداحافظی کرنا ہوگا۔ نتن یاہو نے حکومت میں باقی رہنے اور ممکنہ عدالتی تحقیقات سے بچنے کے لئے اسرائیل کو دو سیاسی گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث فلسطینی گروہوں کو تاریخی حملے کا موقع مل گیا۔

موجودہ صہیونی حکومت اور شدت پسند کابینہ مسجد اقصی اور دیگر مقدس مقامات پر توہین آمیز کاروائیوں کے سبب اس جنگ کا باعث بن گئی ہے جس کے نتیجے میں حکومت سقوط کے قریب پہنچ گئی ہے اور نتن یاہو بھی ایہود اولمرٹ کی طرح اسرائیلی سیاسی منظر عام سے ہمیشہ کے لئے غائب ہوجائیں گے۔

خارجی سطح پر اس حملے کا پہلا اثر یہ ہوگا کہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی صہیونی حکومت کی کوششوں کو دھچکہ لگے گا کیونکہ ان حملوں کے بعد عرب ممالک کی جانب سے آنے والے ردعمل کی وجہ اسرائیل کے ساتھ دوستی کے خواہاں ممالک آسانی کے ساتھ ہاتھ بڑھانے کی جرائت نہیں کریں گے۔ اس اقدام سے ان کی اندرونی مقبولیت خطرے میں پڑجائے گی۔

جوبائیڈن انتظامیہ نے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے قیام کے لئے کوششیں شروع کی تھیں تاکہ آئندہ انتخابات میں یہودی برادری کی توجہ حاصل کرسکے اب امریکی حکومت کو اپنے اقدامات کی وضاحت دینا ہوگا۔

ان حملوں کے بعد دفاعی اور سیاسی نقصان کے علاوہ صہیونی حکومت کو نفسیاتی طور پر بھی بڑی شکست ہوئی ہے اور مقبوضہ علاقوں سے غیر ملکی مہاجرین کی واپسی کا عمل تیز ہوگا۔

اسرائیل میں زندگی گزارنے کے فیصلے کے بارے میں شک اور تردید کا شکار صہیونی اسرائیل کو چھوڑ کر دوسرے ممالک کا رخ کریں گے جہاں حالات پرامن اور مستحکم ہوں۔