مہر نیوز، بین الاقوامی ڈیسک، (پہلی قسط)؛ تہران یونیورسٹی کے استاد سید ہادی برہانی نے سعودی عرب اور صہیونی حکومت کے درمیان تعلقات کے قیام کے حوالے سے اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ صہیونی وزیراعظم نتن یاہو نے اسی چینل کو چند روز بعد انٹرویو دیتے ہوئے اسی بات کو تکرار کیا۔ امریکہ میں تعیینات بحرین کے سفیر عبداللہ بن راشد نے بھی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو حتمی قرار دیتے ہوئے وقت کا مسئلہ قرار دیا۔ گذشتہ دنوں میں اسرائیلی وزراء کی جانب سے سعودی عرب کے دورے نے ان افواہوں پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود کالم نگار کا عقیدہ ہے کہ سعودی عرب اور صہیونی حکومت کے درمیان تعلقات کی راہ میں کچھ رکاوٹیں ہیں جن کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ رکاوٹیں دونوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کو ناکام بناسکتی ہیں۔ ذیل میں ان رکاوٹوں کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کی جاتی ہیں؛
1۔ سعودی عرب ایک مکمل اسلامی ملک ہے۔ تقریبا اس کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے علاوہ ازین آبادی کا بیشتر حصہ اسلامی اور روایتی نظریات کا پابند ہے۔ اس کی وجہ سے عالم اسلام اور اسلامی مقدسات پر یہودیوں کے تسلط کے بارے میں سعودی مسلمان حساس ہوچکے ہیں۔ سعودی عرب کی فلسطین کی حمایت تاریخی ہے اور اسرائیل کے ساتھ جنگ میں مالی اور جانی نقصانات اٹھاچکا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ملک کے عوام اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے مخالف ہیں۔
اکنامسٹ میں منتشر ہونے والے سروے نتائج کے مطابق ملک کے صرف دو فیصد لوگ صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے حامی ہیں جبکہ اس حوالے سے عرب امارات میں 75 فیصد اس بات کے حامی ہیں۔ بنابراین جمہوری اصولوں کے مطابق ان کوششوں کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں ہیں فقط طاقت اور جبر کے زور پر اس فیصلے کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ فقط عوام بلکہ علماء اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ یہ واقعہ مصر اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے غیر جمہوری صلح کی طرح ملک کا امن اور سکون برباد کرسکتا ہے۔
2۔ سعودی عرب کے علاوہ فلسطین کا رائے عامہ بھی اس کے خلاف ہے۔ فلسطین میں سعودی سفیر نایف بن بندر کا مسجد اقصی کے دورے کی منسوخی اس کی حکایت کرتی ہے کہ فلسطینی نمازیوں کی جانب سے احتجاج اور ردعمل کے پیش نظر اس دورے کو منسوخ کیا گیا ہے چنانچہ ایسا ہی واقعہ صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے حامی سعودی بلاگر محمد السعود کے ساتھ پیش آچکا ہے۔ جب وہ مسجد اقصی کا دورہ کررہے تھے تو فلسطینیوں نے ان کے خلاف نعرے لگائے اور مسجد سے باہر نکال دیا تھا۔
صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کا ردعمل سعودی عرب اور فلسطین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تمام اسلامی ممالک میں جوان نسل اس پر ردعمل دکھائے گی۔ سروے کے معتبر ادارے الموشر العربی کے مطابق تمام عرب ممالک میں عوام کی اکثریت صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے خلاف ہے۔ مصر، اردن اور مراکش جیسے صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات رکھنے والے ممالک میں بھی یہی صورتحال ہے۔ عالم اسلام میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ڈکٹیٹرشپ اور غیر جمہوری قرار دیا جاتا ہے جس کو عوام میں کوئی مقبولیت نہیں ہے۔
3۔ فلسطینیوں پر تجاوز اور ظلم و ستم ڈھانے کے بعد سے ہی فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک میں اسرائیل کے خلاف عمومی نفرت اور تعلقات کے خلاف عمومی سوچ پائی جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں نتن یاہو کی شدت پسند کابینہ کے کردار کی وجہ سے یہ سوچ مغربی حتی اسرائیل کے یہودی معاشرے تک سرایت کرچکی ہے۔ کوئی بھی شخص صہیونی حکومت کو تعلقات کی قابل نہیں سمجھتا ہے۔ اس حکومت کے ساتھ تعلقات اور روابط کو اس کی غیر جمہوری پالیسیوں اور انسانیت مخالف اقدامات کی تائید قرار دی جاتا ہے اسی لئے مغربی حکومتیں بھی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کی حمایت نہیں کرتی ہیں۔ امریکی حکومت کی اس حوالے سے سنجیدگی بھی مشکوک ہے۔ موجودہ امریکی حکومت میں اس حوالے سے اتفاق رائے کا فقدان ہے۔
4۔ فلسطینیوں کی جانب سے سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کی کی بنیاد تاریخی ہے جس کے مطابق ان کے درمیان تعلقات قائم ہونے سے مسئلہ فلسطین حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوجائے گا اور اس پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اسرائیل کو مزید مواقع فراہم ہوں گے کہ آسانی کے ساتھ فلسطینیوں کے حقوق غصب کرکے یہودی سازی کا عمل مزید تیز کرے۔ اس عمل کو تقویت دینے کے لئے عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا حوالہ دیا جاتا ہے جن سے فلسطینیوں کی مشکلات میں اضافے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔ مصر کے ساتھ ہونے والے ابتدائی معاہدے سے لے کر حال ہی میں عرب امارات کے ساتھ ہونے والے معاہدے تک اس بات کا واضح ثبوت موجود ہے۔ انور سادات نے دعوی کیا تھا کہ اسرائیل کو فلسیطنیوں کے حقوق ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا اسی طرح عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ نام نہاد صلح کے موقع پر شرط رکھی تھی کہ اسرائیل غرب اردن میں یہودی آبادکاری کا منصوبہ ترک کردے گا لیکن اس کے بعد فلسطینیوں کی مدد اور مشکلات حل ہونے کے بجائے مظالم اور تجاوزات کا سلسلہ مزید بڑھ گیا۔ مکار اسرائیلی حکام کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ صلح فلسطین کی آزادی اور صہیونیوں کے ظلم سے مسلمانوں کی نجات کے ساتھ خیانت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
5۔ سعودی عرب کو عالم اسلام میں مرکزی کردار حاصل ہے۔ اسلامی مقدس مقامات مکہ اور مدینہ سعودی عرب میں ہیں۔ ان مقامات کے مقام کی وجہ سے سعودی بادشاہ نے خود کو خادم حرمین شریفین کا لقب دیا ہوا ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد مختلف ممالک سے حج ادا کرنے یہاں آتے ہیں۔ قدس کی آزادی کے لئے تشکیل پانے والی او آئی سی کا سیکریٹریٹ سعودی عرب میں ہی واقع ہے علاوہ ازین اس ملک کی دولت اور ثروت نے اس کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس اہمیت اور کردار کے حامل سعودی عرب کے لئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا نہایت مشکلات پیدا کرسکتا ہے جب کہ امت مسلمہ کی اکثریت اس کے خلاف ہے اور بیشتر اسلامی ممالک کے اسرائیل سے تعلقات نہیں ہیں۔ سعودی بادشاہ خود خادم حرمین کیسے کہہ سکتے ہیں جبکہ تیسرے حرم یعنی مسجد اقصی کے ساتھ خیانت کررہے ہیں اور ایسی حکومت کے ساتھ دوستی کے ہاتھ بڑھارہے ہیں جو اسلامی مقدسات کی توہین کی مرتکب ہوچکی ہے۔ ماضی کے واقعات کا انکار کریں تو یہودی شدت پسندوں کے حالیہ مظالم تو کسی کے لئے بھی قابل پنہان نہیں ہیں۔
6۔ اسرائیل کے ساتھ روابط برقرار کرنا 2002 میں بیروت میں پیش ہونے والے صلح عربی سے مختلف ہے۔ بیروت میں عرب ممالک کے اجلاس میں پیش ہونے والی تجویز کے مطابق صہیونی حکومت کو اس شرط پر تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا کہ اسرائیل 1967 میں قبضہ کرنے والے علاقوں سے عقب نشینی کرے اور بیت المقدس کو دارالحکومت بناکر فلسطین کے نام سے ایک الگ ملک قائم کرنے دے۔ البتہ اس منصوبے کو عرب امارات اور بحرین جیسے عرب ممالک نے پامال کیا لیکن چونکہ سعودی عرب نے خود یہ تجویز پیش کی تھی۔ جب سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے یہ تجویز دی تو اسلامی اور عرب ممالک نے اس کو قبول کرلیا۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین کے ساتھ سازگار ہونے کی وجہ سے اس منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہے۔
7۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی خبریں ایسے وقت میں سامنے آرہی ہیں جب صہیونی مظالم کی وجہ سے فلسطینی عوام گہر درد و رنج میں مبتلا ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی سے غزہ کا محاصرہ جاری ہے اور عوام روزمرہ کی بنیادی ضروریات کے لئے ترس رہے ہیں۔ غرب اردن میں آئے روز فلسطینی شہید ہورہے ہیں۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک غرب اردن میں 250 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔ پہلے صہیونی حکومت اور سیکورٹی فورسز اس طرح کے مظالم ڈھاتی تھیں لیکن اب صہیونی آبادکار اتنے جری ہوگئے ہیں کہ فلسطینیوں کی چاردیواری اور مقدس مقامات کی بھی بے حرمتی کرنے لگے ہیں۔ 1300 سے زائد فلسطینی کسی جرم کے بغیر جیلوں میں قید ہیں۔ فلسطینیوں کے گھروں کی تخریب اور زمینوں پر قبضہ جاری ہے۔ پورے فلسطین میں مقامی آبادی کو ختم کرکے صہیونی آبادکاروں کو بسانے کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف نسل امتیاز کی وجہ سے حقوق انسانی کے مغربی اداروں نے بھی اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کیا ہے۔ اسرائیل کے ناجائز دباو کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی اور صہیونی حکومت کے تحت کام کرنے والوں کا بھی دم گھٹ رہا ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا صہیونی حکومت کے لئے کسی انعام سے کم نہیں جس کے بعد فلسطینیوں پر ظلم و ستم میں مزید اضافہ ہوگا۔
8۔ اسرائیل کی موجودہ کابینہ تعلقات اور روابط کی ذرہ برابر لیاقت نہیں رکھتی ہے۔ اسرائیلی تاریخ میں یہ کابینہ سب سے زیادہ اسلام اور عرب مخالف کابینہ ہے جو فلسطینیوں کے لئے کسی بھی قسم کے حقوق کی قائل نہیں ہے۔ گذشتہ کابینہ میں غرب اردن اور غزہ میں فسلطینیوں کے لئے مختصر زمین یعنی پورے مقبوضہ فلسطین کا بیس فیصد کا حق دیا گیا تھا لیکن موجودہ کابینہ اس پر بھی راضی نہیں ہے۔ گذشتہ مہینے اقوام متحدہ کے اجلاس میں نتن یاہو نے نقشہ دکھا کر یہی ثابت کردیا ہے۔ اس نقشے میں پورے فلسطین کو اسرائیل دکھایا گیا ہے جس میں فلسطین کو مشرق وسطی کے نقشے سے مکمل ختم کیا گیا ہے۔ حالیہ سالوں میں فلسطین میں عربوں کے حقوق غصب کرنے کو قانونی شکل دی ہے۔ 2018 میں پاس ہونے والے قانون کے مطابق حکومت یہود نے ملک کی تقدیر کو یہودیوں کے حوالے کیا ہے۔ اسی قانون میں عربی زبان کو ختم کرکے عبرانی زبان کو اسرائیل کی قومی زبان قرار دیا ہے علاوہ ازین غرب اردن میں صہیونی کالونیوں کی تعمیر بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے اس کو بھی قانونی شکل دی گئی ہے۔ عربوں پر اس قدر ظلم اور تجاوز کرنے والی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ان حالات میں عرب ممالک کا یہ فیصلہ پوری ایک نسل کو ظالم حکومت کے سامنے پیش کرنے کے مترادف ہے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اس جنایت کار حکومت کے سامنے سرنڈر کرنے کا باعث ہے۔