مغربی ذرائع ابلاغ نے ایران کی شمولیت اور روسی صدر کی جانب سے اپنی تقریر میں تکرار کے ساتھ خلیج فارس کی اصطلاح کے استعمال کو نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کی

مہر خبررساں ایجنسی_ بین الاقوامی ڈیسک؛ جوہانسبرگ میں ہونے والا برکس کا اجلاس حالیہ دنوں میں عالمی سطح پر ہونے والا اہم واقعہ تھا جس کو مغربی ممالک نے نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ مغربی میڈیا ٹرمپ کی گرفتاری اور یوکرائن کو زیادہ کوریج دے رہے تھے اتنے میں ایران سمیت چھے ممالک کی شمولیت سے برکس کی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی شمولیت کے مختصر عرصے بعد برکس کے اجلاس میں جنوبی افریقی صدر کی جانب سے ایران سمیت چھے ممالک کو رکنیت دینے کا اعلان کیا گیا۔ امریکہ اور صہیونی حکومت ایران کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ 

ایران نے کامیاب خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے چین، بھارت، روس اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک کے ساتھ روابط مزید بڑھائے ہیں ایسے میں برکس میں شمولیت سے ایران کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔

برکس نے اقتصادی طاقت کے طور پر مغرب کی اجارہ داری کو چیلنج کیا ہے۔ چین، روس، برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ نے دنیا کے بڑے اقتصادی ممالک کی حیثیت سے برکس کی بنیاد رکھی تھی گزشتہ دنوں ایران سمیت اقتصادی طور پر ابھرنے والے ترقی پذیر ممالک کی شمولیت سے امریکہ اور مغرب کی اقتصادی حکمرانی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

برکس اجلاس میں پیش آنے والا دوسرا اہم واقعہ روسی صدر کی جانب سے استعمال کیے جانے والا لفظ "خلیج فارس" تھا۔ روسی صدر کی تقریر سے امریکہ سمیت عرب ممالک کو واضح پیغام مل گیا ہے کہ ایران اور روس کے تعلقات اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں۔ روسی صدر کے معاون ایگور لوتین نے ایرانی نائب صدر اور ماسکو میں ایرانی سفیر کو اپنے پیغام میں ایران کی برکس میں شمولیت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ایران کی شمولیت سے برکس کی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا اور دونوں ممالک کے درمیان جاری معاہدے پر عملدرآمد میں تیزی آئے گی۔

صدر پوٹن کی جانب سے "خلیج فارس" کے استعمال سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ روس ایران کی خطے میں اہمیت سے آگاہ ہوگیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے خطے کے چند ممالک کے ساتھ روس کے اجلاس میں روسی حکام کی جانب سے حقیقت کے برعکس موقف سامنے آیا تھا جس کے بعد ایران نے وزارت خارجہ کی سطح پر سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ خلیج فارس کے تینوں جزائر ایران کا جزو لاینفک ہیں۔ ایران کے اس موقف کے بعد روسی حکام خطے میں ایران کی اہمیت سے باخبر ہوگئے ہیں حالانکہ ترکی جیسے بعض ہمسایہ ممالک دولت مند عرب ممالک کی توجہ حاصل کرنے کے لئے خلیج بصرہ یا خلیج عرب جیسی اصلاحات استعمال کررہے ہیں۔

برکس کے اجلاس میں روس، برازیل اور جنوبی افریقہ کے سربراہان مملکت کہ جانب سے برکس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ ڈالر کی عالمی اجارہ داری کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ رکن ممالک کے وزرائے خزانہ ڈالر کا متبادل نظام متعارف کرانے کے لئے مشورے کررہے ہیں۔ یورونیوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ برکس ممالک سنجیدگی کے ساتھ ڈالر کا متبادل نظام لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ چین اور برازیل کے سربراہانِ مملکت کی خواہشات کے عین مطابق ایران اور دیگر ممالک کی شمولیت کے بعد اس خواب کی تعبیر ملنے کا وقت نزدیک پہنچا ہے۔

قابل زکر ہے کہ اجلاس کے دوران صدر پوٹن نے خلیج فارس کی اصطلاح استعمال کرکے خلیج فارس کے کنارے واقع عرب ممالک کو واضح پیغام دیا ہے کہ روس کی بھی حالت میں ایران کے ساتھ تعلقات کو نظر انداز نہیں کرے گا۔