مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطین انفارمیشن سینٹر کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی حلقوں کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کی کابینہ کے حالیہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے سرحدی علاقے میں حزب اللہ کے خیمے کو طاقت کے زور پر اکھاڑنے کی صورت میں شمالی سرحدی علاقے میں تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے۔
صہیونی آرمی ریڈیو کے ملٹری رپورٹر نے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی فوج اور سیکورٹی فورسز کی طرف سے تجویز کردہ سفارشات اور ہدایات کے ساتھ نیتن یاہو کی موافقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نیتن یاہو عدالتی اصلاحات بل سے توجہ ہٹانے کے لئے شمالی سرحدوں پر فوجی نقل و حرکت اور تنازعات کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
نیز صیہونی حکومت کے ٹی وی چینل 14 نے کہا ہے کہ اس حکومت کی وزارت دفاع نے اسرائیل میں داخلی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے شمالی سرحدوں میں کشیدگی اور سلامتی کی صورت حال کے بگڑنے کے امکان کے لیے خود کو تیار کر لیا ہے جب کہ حزب اللہ اس صورت حال کو غاصب رژیم جانبداری کی بڑی کمزوری کے طور پر دیکھتے ہوئے اس پر کاری ضرب لگانے کا ایک موقع جانتی ہے۔
دوسری جانب عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت کے پولیٹیکل رپورٹر نے بھی نشاندہی کی کہ کنیسٹ کی سیکورٹی اور خارجہ امور کی کمیٹی کے پیر کو ہونے والے اجلاس میں کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کیا گیا اور صرف رہنما اصولوں اور مستقبل کے حل پر اتفاق کیا گیا۔ انہوں نے بعض اعلیٰ اسرائیلی سیکورٹی حکام کے حوالے سے کہا کہ ہمیں شمالی سرحدوں پر تنازعات اور تصادم کی کوئی جلدی نہیں ہے۔
صہیونی آرمی ریڈیو نے بعض سیکورٹی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ حزب اللہ کے خیمے سیکورٹی کے لیے خطرہ نہیں ہیں اور ہم غیر ضروری اقدامات نہیں کریں گے۔
صیہونی حکومت کے کمانڈروں کے موقف کا خلاصہ جو کہ نیتن یاہو کو پیش کیا گیا، اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ صیہونی حکومت کے ارادوں کے بارے میں سید حسن نصر اللہ کی غلط فہمی مزید کشیدگی اور حالات کے بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے، جب کہ موجودہ صورت حال میں اس طرح کے تنازع میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔
نیز عبرانی نیوز سائٹ واللا نے صہیونی سیکورٹی حکام کی ملاقاتوں کے دوران کہا کہ سرحدی علاقوں میں حزب اللہ کی اشتعال انگیز کارروائیوں اور کسی بھی حقیقی حملے کے درمیان فرق کیا جانا چاہیے۔
مذکورہ ذریعہ نے کہا کہ جیسا کہ کنیسٹ سیکورٹی اینڈ فارن افیئرز کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ حزب اللہ کا مقابلہ کرنے میں جلدی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
عبرانی زبان کے کان چینل نے بھی باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی فوج نے نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان سرحدی تنازع کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی ثالث کے ذریعے مذاکرات کی حمایت کی۔
ان ذرائع نے تاکید کی کہ فوج کے بعض کمانڈروں نے اس طرح کی کارروائی کی حمایت کا اعلان کیا اور ساتھ ہی سرحدی علاقوں میں حزب اللہ کے سرحدی خیموں کے مسئلے پر بھی بات کی۔
مذکورہ ذرائع نے بتایا کہ مشاورت اور مذاکرات کے اختتام پر ایسے واقعات اور رد عمل کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو بنیادی طور پر صیہونی حکومت کی حزب اللہ کے ساتھ تصادم میں نہ آنے پر زور دیتا ہے اور ساتھ ہی اس امکان کو بھی رد نہیں کرتا۔
گذشتہ روز لبنانی وزیر خارجہ عبداللہ بوحبیب نے المیادین چینل کے ساتھ بات چیت میں حزب اللہ کے خیموں کے حوالے سے پیغامات کے تبادلے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ لبنان میں پانچ بڑے ممالک کے سفیر ہمارے پاس حزب اللہ کے شعبا کے میدانوں میں نصب کردہ خیموں کے سلسلے میں بات چیت کے لئے آئے لیکن ہمارا ان سے جواب یہ تھا کہ ہمیں اس علاقے پر قابضین کے قبضے کی بات کرنی چاہیے، نہ کہ وہاں نصب خیموں کے بارے میں۔
واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں لبنان کے سرحدی علاقوں میں غاصب صیہونی فوج کی کارروائیوں کے بعد جو لبنانی عوام اور فوج کا سخت ردعمل سامنے آیا اور حزب اللہ نے الغجر کے علاقے کے گرد دو خیمے نصب کر دیے، جس سے غاصب صیہونی حکومت اور فوج میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔
حزب اللہ کے حکام نے بارہا کہا ہے کہ اسرائیلی فوج مزاحمتی قوتوں کے خیموں کو اکھاڑنے کی جرات نہیں کر پارہی، یہی بات تل ابیب کی شکست کی علامت ہے۔