مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اگرچہ ایرانی صدر کے افریقی ممالک کے دورے کو چند دن ہو گئے ہیں، لیکن افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کے لیے ایران کے اس اہم قدم کے حوالے سے عالمی میڈیا میں تبصروں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ قابض صیہونی حکومت کے تجزیہ نگاروں نے افریقی براعظم میں ایران کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے (جسے ایک دہائی سے زائد عرصے سے نظر انداز کیا گیا ہے) کہا ہے کہ امریکی پابندیوں کے شکار تہران افریقی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں توسیع کے علاوہ ایک اہم ہدف رکھتا ہے اور وہ ہے مغربی ممالک کے تسلط کو مسترد کرتے ہوئے ایک کثیر القطبی دنیا کی تشکیل۔
روزنامہ رائ الیوم نے اپنے آرٹیکل میں " جنگ کے سائے میں اسرائیل کی افریقہ میں مزاحمت کی حمایت کے ایک نئے محاذ کی تشکیل پرتشویش" کے عنوان سے لکھا کہ غاصب صیہونی حکومت مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ کی توسیع کو روکنے کے لیے اپنی کوششوں کو چھپا نہیں سکتی۔ باخبر ذرائع کے مطابق تل ابیب نے افریقی براعظم میں ایران کے اقدامات پر نظر رکھنے کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ یوں تو ایرانیوں نے اعلان کیا ہے کہ اس براعظم میں ان کا مقصد اقتصادی تعلقات ہیں لیکن امریکہ مخالف محور کی حمایت کے حوالے سے ایران کی اسٹریٹجک پالیسیاں (غاصب) صیہونی حکومت کے لیے ایک نئے چیلنج کا باعث بنی ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو ایران کے اثر و رسوخ میں توسیع کے خلاف فعال خارجہ پالیسی نہیں رکھتی۔
مذکورہ آرٹیکل میں غاصب صیہونی حکومت کی داخلی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ "میر بن شباط" کے بیان کو نقل کیا گیا ہے جس میں انہوں نے ایرانی صدر کے مذکورہ دورے کا مقصد افریقی براعظم میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھانے اور امریکہ مخالف کیمپ کو وسعت دینے کی ایک کوشش ہے۔ افریقی براعظم کی طرف ایران کی پیش قدمی کے بارے میں تل ابیب کا یہ خیال ہے کہ یہ اقدام تہران کے خلاف عائد امریکی پابندیوں کے جواب میں ایران کے لیے نئے اقتصادی آپشنز اور مواقع کی تلاش کے طور پر اٹھایا گیا ہے جو کہ یقیناً بڑے اسٹریٹجک اہداف جیسے کہ ایران کے لیے نئی اقتصادی راہداری کی تلاش، عالمی کثیر القطبی نظام کی تشکیل اورامریکہ اورمغرب کے تسلط کو توڑنا وغیرہ کا حامل ہے۔
روزنامہ العربی الجدید نے مقبوضہ بیت المقدس کے جنوب میں صیہونی مخالف آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: بیت المقدس کے جنوب میں (غاصب) آباد کاروں کے خلاف نیا آپریشن جس کے نتیجے میں 3 صیہونی زخمی ہوئے ہیں، دراصل فلسطینیوں اور بیت المقدس کے خلاف آباد کاروں کی جارحیت کے جواب میں انتقامی کارروائی ہے۔ اس سال کے آغاز سے اب تک صہیونی آبادکاروں کے 35 سے زائد حملے تقوع کے علاقے میں فلسطینیوں کے خلاف ہوچکے ہیں اور یہ علاقہ تین سمتوں سے صیہونی بستیوں میں گھرا ہوا ہے۔
لبنانی روزنامہ الاخبار نے شام میں امریکہ کے اقدامات کے بارے میں لکھا ہے: امریکی شام میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو بڑھانے، اس ملک میں میدانی کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنی موجودگی کو جواز فراہم کرنے کے درپے ہیں۔ خاص طور پر چونکہ ہم شام اور ترکی کے درمیان ایک معاہدے کی دہلیز پر ہیں۔ یہ دونوں ممالک شام میں امریکی موجودگی کے خلاف ہیں۔ امریکی اس وقت مشرقی شام کے ان حصوں پر قابض ہیں جہاں تیل کے وسائل موجود ہیں اور وہ اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکیوں اور ان کی اتحادی افواج نے حال ہی میں مشرقی شام، بالخصوص کونیکو میں العمر تیل اور گیس کے میدانوں میں نئے فوجی سازوسامان بھیجے ہیں۔ اس منصوبے میں امریکہ عراق کے سرحدی علاقوں کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے اور شام اور لبنان میں مزاحمتی قوتوں کی نقل و حرکت کو منقطع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لبنان کے ایک اور روزنامے البنا نے بیروت میں فرانسیسی سفیر کی توہین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: فرانس کے قومی دن کے موقع پر اپنی تقریر میں "این گریو" نے لبنانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اگر فرانس وہاں نہ ہوتا اور آپ کی سیکورٹی فورسز کی مدد نہ کرتا تو لبنان کا کیا ہوگا؟" اگر جنوبی لبنان میں UNIFIL فورسز کی شکل میں 700 فرانسیسی فوجی نہ ہوتے تو کیا یہ خطہ استحکام پاتا؟ ۔۔۔۔۔ اخبار نے لکھا کہ فرانسیسی سفیر کے یہ الفاظ لبنان کے بارے میں یورپی یونین کے نقطہ نظر کو واضح کرتے ہیں، جس نے لبنان میں شامی پناہ گزینوں کے حوالے سے اپنی نئی قرارداد سے ظاہر کیا کہ وہ اس ملک کو اب بھی ایک کالونی کے طور پر دیکھتا ہے۔
شام کے روزنامہ الثورۃ نے عراقی وزیر اعظم کے شام کے اہم دورے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: اس دورے اور بشار الاسد کے ساتھ سودانی ملاقات نے ثابت کیا کہ مشترکہ چیلنجوں کے بارے میں دونوں ممالک کے نظریات قریب ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور اقتصادی شعبوں میں وسیع جست لگانے کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ شام اور عراق دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں متحد ہو گئے ہیں۔ اس ملاقات کا مطلب مغرب اور ان ممالک کی حکومتوں کی پالیسیوں کی مخالفت کرنا ہے جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردوں کو استعمال کرنے پر اصرار کرتی ہیں۔
عراقی روزنامہ المراقب نے امریکہ کے اقدامات کے بارے میں لکھا ہے: امریکی اپنے تازہ ترین اقدامات میں عراق کے سرحدی علاقے میں واقع التنف اڈے پر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مل کر ایک مسلح فورس تشکیل دینا چاہتے ہیں جو کہ عراق کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، خاص طور پر چونکہ التنف کے علاقے میں جدید ترین فوجی ساز و سامان کے ساتھ امریکہ سے وابستہ مسلح عناصر کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے جب شام اور عراق داعش اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا دور گزار چکے ہیں اور ان ممالک میں امریکی عناصر کی موجودگی کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔"
یمنی روزنامہ المسیرہ نے اس ملک کی اقتصادی کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے: ملکی کرنسی کا زوال جارح ممالک کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ممالک امریکہ کی سرپرستی میں یمن کے لئے قدرتی وسائل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو استعمال کرنے کی تمام حکمت عملیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ جارحیت اور محاصرہ امریکہ کی شرمنک تسلط پسندانہ پالیسی ہے۔