مہر خبررساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے خبر دی ہے کہ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کابینہ کے سینئر وزراء کے ساتھ اتوار کی شام کو فرانس میں جاری مظاہروں کے بارے میں پیرس حکومت کے مربوط ردعمل کے لیے ملاقات کی۔
میٹنگ میں موجود وزراء میں سے ایک نے بتایا کہ وزیر اعظم الزبتھ بورن اور وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارون اور وزیر انصاف ایرک ڈوپونٹ مورٹی سے میکرون نے کہا کہ وہ امن و امان کی بحالی کے لیے اپنی کوشش تیز کر دیں۔
فرانسیسی وزارت داخلہ کے مطابق اتوار کو رات گئے کشیدگی میں قدرے کمی آئی ہے۔ گرفتاریاں نصف سے کم ہو کر 719 رہ گئیں، اور فسادات پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں تعینات کیے گئے 45,000 پولیس اہلکاروں میں سے صرف 50 زخمی ہوئے، جو گزشتہ راتوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ تاہم حال ہی میں پیرس کے نواحی علاقے میں میئر کے گھر پر ہونے والے حملے نے بدامنی کا خطرہ بڑھا دیا ہے.
اس کے علاوہ میئرز کی انجمن کے سربراہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ حالیہ دنوں میں فرانس بھر میں تقریباً 150 سٹی ہالز یا میونسپل عمارتوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ پیرس کے حکام نے اتوار کی رات سے ملک کے دارالحکومت میں 7000 اضافی پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔
میکرون کو 2017 میں صدر منتخب ہونے کے بعد سے پرتشدد مظاہروں کی یہ تیسری لہر کا سامنا ہے۔
اس سے پہلے میکرون کو "پیلی جیکٹ احتجاج" کا سامنا تھا اور چند ماہ قبل تک وہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں تبدیلی پر احتجاجی تحریک کا بھی سامنا کر رہے تھے۔ مظاہروں کا تسلسل فرانس میں سماجی تناؤ کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران پیرس کے مغرب میں "نانٹر" کے نواحی علاقے میں ایک 17 سالہ الجزائری نوجوان کی ہلاکت کے بعد فرانس کے دارالحکومت اور اس ملک کے دیگر شہروں جیسے مارسیلی، لیون، اسٹراسبرگ، ٹولوس اور لِل مظاہروں اور خانہ جنگی کی آگ میں جل رہے ہیں۔
فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمین کے مطابق اگرچہ جمعہ کی رات کو ہونے والا تشدد پچھلی رات کے مقابلے میں کم تھا لیکن صرف جمعہ سے ہفتہ کی صبح تک 994 افراد کو گرفتار کیا گیا اور اس سے پہلے رات 875 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
اس طرح پہلے چار دنوں میں حراست میں لیے گئے افراد کی کل تعداد 1,869 بتائی گئی ہے۔
فرانس کی وزارت داخلہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہفتے کی رات سے اتوار تک ملک بھر میں 1019 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے صرف 200 کو دارالحکومت سے گرفتار کیا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق زخمی پولیس اہلکاروں کی تعداد بھی 300 تک پہنچ گئی ہے
فرانس کی حکومت نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے پورے ملک میں 45,000 سے زیادہ پولیس کی نفری شورش زدہ علاقوں میں بھیجی۔
اگرچہ فرانس میں پولیس کا مظاہرین پر تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ہم نے 1960 سے سکیورٹی فورسز کی عوام کے ساتھ پرتشدد جھڑپیں دیکھی ہیں لیکن فرانس کی تاریخ میں پرتشدد مظاہروں کا موجودہ حجم بے مثال ہے۔
مظاہروں کی ایک سب سے اہم وجہ میکرون کی عدم برداشت کی پالیسی اور ان کی حکومت کا عوامی مطالبات پر کان نہ دھرنا بھی ہے، جو گزشتہ مہینوں جاری اس رویے کی ایک مثال ہے.
چنانچہ پارلیمان میں ووٹ کے بغیر متنازعہ پنشن اصلاحات کو آگے بڑھانے کے ملک کے صدر کے فیصلے سے فرانسیسی عوام کے جمہوریت پر اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے اور کاخ ایلیسی مطلق العنانیت کے راستے پر چل نکلا ہے۔
پیلی جیکٹ احتجاج اور پھر پنشن کے اصلاحاتی قانون نے میکرون کی مقبولیت کے گراف کو شرمناک حد تک گرا دیا ہے۔
اگر میکرون کی حکومت ان مظاہروں پر قابو پاتی ہے اور موجودہ واقعات کے بعد رائے شماری کرائی جاتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مقبولیت میں کمی کی شرح مزید بڑھ جائے گی۔