مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ سویڈن کی پولیس کی اجازت اور اس ملک کی سیکورٹی فورسز کی گستاخوں کو ہری جھنڈی دکھانے سے دنیا نے ایک بار پھر اسٹاک ہولم میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا مشاہدہ کیا۔ اس بار قرآن جلانے کے گھناؤنے فعل کا مرتکب ایک عراقی مہاجر تھا جس نے عیدالاضحی کے پہلے دن سٹاک ہولم کی مرکزی مسجد کے قریب دنیا کے پونے دو ارب مسلمانوں کے مقدسات کی بے حرمتی کی۔
واقعے کے بعد دنیا کے کئی مسلم ممالک نے اس پر ردعمل کا اظہار کیا اور ایران،عراق، اردن، ترکی، روس، سعودی عرب، مراکش، خلیج فارس تعاون کونسل، کویت، فلسطین، لبنان، مصر وغیرہ نے اس بے حیائی کی مذمت کی۔
مغرب کے مذمتی بیانات اورسویڈش پولیس کے طرزعمل کو سمجھنے میں بعض میڈیا ہاوسزغلطی کا شکار ہوگئے!
ملکی اداروں اور حکام کے سرکاری موقف کے برعکس بدقسمتی سے بعض ذرائع ابلاغ اس مسئلے کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے سے قاصر رہے اور اس مسئلے کا حقیقت سے کوسوں دور تجزیہ کیا۔
مذکورہ ذرائع ابلاغ کی سب سے اہم غلطی سویڈش اور امریکی حکام کے واقعے سے متعلق موقف کو مثبت رخ دینا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سویڈش پولیس کی جانب سے اس ملک کے دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر گستاخی کو جواز فراہم کرنے والے ایسے اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود اس خبر پر پھولے نہ سمانا کہ "سویڈش پولیس نے قرآن کو جلانے والے شخص کے خلاف شکایت درج کرائی" اگرچہ اس خبر میں صحت بھہ ہو تو اس کا گستاخوں کے بے حرمتی والے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ واقعے کے بعد ہونے والے ہنگاموں سے ہے۔
اصل ماجرا کیا ہے؟؟؟
قصہ کچھ یوں تھا کہ جب اس انتہا پسند سویڈش شہری نے اس ملک کے حکام کی حمایت میں تقریباً 200 لوگوں کے سامنے قرآن پاک کے اوراق پھاڑنے کی کوشش کی تو وہاں موجود لوگوں نے اس جارحانہ اقدام کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے کسی نے اس پر پتھراؤ کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا۔
اگرچہ بعض میڈیا ہاوسز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ "اس واقعے کے بعد، پولیس نے قرآن پاک کو جلانے والے شخص پر نسلی یا قومی گروہ کے خلاف بھڑکانے اور جلانے پر پابندی کے قانون کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے" تو وہ حقائق سے نظریں چرانے کی بجائے اس بارے میں شائع ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز کو کیوں نہیں دیکھتے؟ کہ کس طرح پولیس نے دو گستاخوں کو مائیک ہاتھ میں لے کر زبان درازی کرنے اور لوگوں کے سامنے مسلمانوں کی مقدس کتاب کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کی اجازت دی!
کیا گستاخوں کا یہ رویہ، جو کیمروں کے سامنے اور پولیس کی مکمل حفاظت میں ہوا، اشتعال انگیز نہیں تھا؟
بعض میڈیا ذرائع کا سوئڈش پولیس کے مذکورہ جانبدارانہ طرزعمل اورسنگین جرم کو ہائی لائٹ کرنے کے بجائے ساری توجہ واقعے کے بعد کی صورت حال پر مرکوز کرنا کیا پیشہ ورانہ نا انصافی نہیں؟ لہٰذا، یہ واضح ہے کہ قرآن کو جلانا آزادی اظہار کے نام نہاد قانون سے زیادہ سیاسی مقاصد کے حصول کا منصوبہ ہے۔
اس واقعے کا بنیادی ہدف کیا ہے؟
قرآن پاک کی بے حرمتی کا منصوبہ نیٹو میں شمولیت کا سیاسی کھیل
گزشتہ سال فروری میں، ایک انتہا پسند اور اسلام مخالف سویڈش نژاد ڈنمارک کے شہری "Rasmus Paludan" نے سویڈن کے دارالحکومت میں ترکی کے سفارت خانے کے سامنے قرآن کا ایک نسخہ نذر آتش کر دیا تھا۔ آج کے قرآن جلانے کی طرح اس نے اس کام کے لیے بھی سویڈش حکام سے اجازت لی تھی۔
سوئڈن ڈیڑھ سال سے یوکرین کے بحران کو کیش کرتے ہوئے فن لینڈ کے ساتھ نیٹو میں رکنیت کے لئے تگ و دو کر رہا ہے، جس کے حصول کی خاطرقرآن کی توہین کا کھیل رچا کر ترکیہ پر اس الحاق کے لئے راضی ہونے پر دباو ڈالنے کی کوشش کرنے لگا ہے۔ کیونکہ صرف ترکیہ ہی اس الحاق کے خلاف ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال اسٹاک ہولم میں ترک سفارت خانے کے سامنے قرآن پاک کو جلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ترک سفارت خانے کے سامنے کیوں؟
ترکیہ کے سفارت خانے کے سامنے ایک انتہا پسند کی جانب سے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی اجازت کا نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) میں ترکیہ کی جانب سے سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت سے بڑا گہرا تعلق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سویڈن کے ایک سینئر پولیس اہلکار نے کہا کہ "جنوری 2023 میں ترکیہ کے سفارت خانے کے باہر قرآن پاک کو جلانے سے سویڈن کے معاشرے اور قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ اس سے بیرون ملک سویڈن اور سویڈن کے غیر ملکی مفادات کو بھی خطرہ تھا۔
یہاں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ پولیس کے اس موقف کے مطابق اگرقرآن جلانا سویڈن کے معاشرے اور قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے تو پھر دوبارہ اس غیر اخلاقی اور انسانیت سوز رویے کی اجازت کیوں دی گئی؟ وہ بھی عید الاضحی کے موقع پر؟ پس معلوم ہوتا ہے کہ سوئڈن ایک بار پھر اس ٹول کے ذریعے ترکیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تا کہ انقرہ نیٹو میں سویڈن کی رکنیت پر رضامند ہو جائے۔
لہٰذا توقع کی جاتی ہے کہ ذرائع ابلاغ کو مذکورہ واقعے کے پس پردہ اہداف کا عمیق جائزه لے كر مغرب کے بیانات اور زبانی موقف کے جال میں نہیں آنا چاہئے۔