مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے طبس میں امریکی ناکام فوجی آپریشن کی مناسبت سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے چار دہائیاں گزرنے کے باوجود امریکہ طبس کے واقعے سے سبق لینے کے بجائے ایرانی قوم کے خلاف مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھنے پر مصر ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 26 اپریل 1980 کو طبس میں پیش آنے والا واقعہ ایران کی خودمختاری کے خلاف امریکی جارحانہ حملے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ امریکہ نے اس روز بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے ایران پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ کے فضل و کرم سے صحرائے طبس میں ریت اور طوفان کی نذر ہوگیا۔
وزارت خارجہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ امریکہ مذکورہ واقعے سے سبق لینے کے بجائے عالمی برادری کو ایران کے خلاف اکسانے میں مصروف ہے۔ گذشتہ 43 سالوں کے دوران امریکہ نے ایران کے خلاف ہر حربہ آزمایا لیکن اسلامی جہوری ایران نے غیر منصفانہ پابندیوں اور موانع کو عبور کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر کیا اور قومی مفادات کا ہر حال میں دفاع کیا۔
واقعۂ طبس
اب سے چالیس سال قبل 24 اپریل 1980 کو شیطانِ بزرگ امریکا نے تہران میں موجود اپنے جاسوسوں کو چھڑانے کے لئے ایک جارحانہ منصوبہ تیار کیا جس کے تحت اس نے اپنے کئی جدید ترین جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کی مدد سے تہران کا عزم کیا، لیکن جب وہ ایران کے صحرائے طبس میں پہونچے تو وہاں اٹھنے والے ایک ریتیلے طوفان کے سبب تمام امریکی ہیلی کاپٹر ایک دوسرے ٹکرا کر تباہ ہو گئے جبکہ باقی بچے امریکی طیارے پرواز کی پوزیشن میں ہی نہ رہے۔
یوں ایران پر امریکا کا حملہ ارادۂ خداوندی سے ناکام ہو گیا اور واشنگٹن کو ذلت آمیز شکست کے بعد دنیا بھر میں رسوائی مول لینا پڑی۔
طبس کے امام جمعہ حجۃ الاسلام سید ابراہیم مہاجریان، ان افراد میں سے ہیں جو واقعۂ طبس کے اولیں شاہدین میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: امریکا کی شرمناک شکست کے دن میں خود وہاں موجود تھا اور میں امریکا کی شکست کے فوراً بعد وہاں پہنچا جہاں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور امریکیوں کی ذلت و خواری کا میں نے قریب سے مشاہدہ کیا۔
وہ کہتے ہیں: میں نے وہاں پہونچ کر دیکھا کہ جنازے خاک پر پڑے ہوئے تھے اور امریکہ کے پیشرفتہ طیارے اور ہیلی کیپٹروں کے ٹکڑے دور دور تک بکھرے ہوئے تھے.
واقعۂ طبس کا تنہا شہید، محمد منتظر قائم
منتظر قائم کویرنامی علاقہ میں پیدا ہوئے ان کے والد کانام شیخ علی اکبر تھا جونہایت شجاع و بہادر آدمی تھے اور ان کا شمار واقعۂ مسجد گوہرشاد(بد حجابی و بے پردگی کے خلاف اعتراض کرنے کی وجہ سے اہل مشہد کا مسجد گوہر شاد میں قتل عام) میں شرکت کرنے والوں میں سے ہوتا تھا۔
محمد منتظر ایسے باپ کے بیٹے ہیں جنہوں نے شجاعت اپنے والد سے وراثت میں پائی۔ فوجی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد انہیں امر بالعروف اور نہی عن المنکر کی غرض سے بھیجا گیا اور وہاں انہوں نے علی الاعلان حکومتِ شاہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا. نتیجہ میں انہیں شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک نے گرفتار کر لیا جس کے سبب انہیں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر جب انہیں آزادی ملی تو انہوں نے دوبارہ شہنشاہی حکومت کے خاتمہ کے لئے نئے انداز میں سر گرمیاں شروع کر دیں۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ سپاہ پاسداران میں شامل ہوئے اور سپاہ یزد کا قیام عمل میں لانے کے بعد اس کی کمان سنبھالی۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کے پہلے صدر بنی صدر نے اپنے وطن کے حق میں خیانت اور امریکی حکومت سے اپنی وفاداری کو ثابت کرنے کے لئے فوج کو حکم دیا کہ وہ صحرائے طبس میں باقی بچے امریکی طیاروں پر بمباری کر دے۔ اس بمباری کا مقصد یہ تھا کہ امریکی طیاروں میں موجود اہم دستاویزات کو نابود کر دیا جائے تاکہ وہ ایران کی انقلابی فورسز کے ہاتھ نہ لگنے پائیں۔ صحرائے طبس میں خائن بنی صدر کے حکم سے ہونے والی اس بمباری میں محمد منتظر قائم شہید ہو گئے جو اس واقعے میں شہید ہونے والے تنہا فرد تھے۔