حالیہ چند مہینوں میں غاصب اسرائیل میں جاری بحرانوں میں شدت آگئی ہے۔ سیاسی، فوجی اور سیکورٹی شخصیات بھی خطرات کا اعتراف کرنے کے بعد سقوط کا انتباہ کرچکی ہیں۔

مہر نیوز، بین الاقوامی ڈیسک: داخلی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے صہیونی حکومت کے سقوط کے بارے میں خبریں ان دنوں عبرانی ذرائع ابلاغ کی زینت بن گئی ہیں۔

ماضی میں اس نوعیت کی خبریں ذرائع ابلاغ میں بہت کم دیکھنے کو ملتی تھیں۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران مقبوضہ علاقوں میں جاری بحران شدت اختیار کرنے کے بعد صہیونی ذرائع ابلاغ اسرائیل کو درپیش خطرات کے بارے میں تبصرے کررہے ہیں۔

غاصب حکومت کو درپیش بدترین حالات میں نتن یاہو کی زیرقیادت حکومت پریشان اور عوام سے حقائق چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ مبصرین کے مطابق صہیونی حکام غزہ اور شام پر جارحانہ حملوں کے ذریعے اپنی دفاعی طاقت کی نمائش اور داخلی صورتحال سے نظریں چرا رہے ہیں۔ نتن یاہو کی کوششیں ریت پر محل تعمیر کرنے کی مانند ہیں جو معمولی طوفان سے زمین بوس ہوسکتا ہے۔

ذیل میں ان چھے عوامل کا طائرانہ جائزہ پیش خدمت ہے جن کی وجہ سے صہیونی حکومت سقوط کے خطرے سے دوچار ہوگئی ہے۔

1۔ مغربی کنارے میں مقاومت کی طاقت میں اضافہ

گذشتہ چند سالوں میں غاصب صہیونی حکومت نے غزہ کی جنگوں میں مقاومتی بلاک کے خلاف سخت تجربات حاصل کئے ہیں۔ 2021 کے سیف القدس معرکے میں یہ حقیقت ثابت ہوگئی کہ غزہ قدس اور مغربی کنارے کے لئے پشت پناہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 2022 میں مغربی کنارے میں مقاومت کی طاقت میں اضافہ ہوا اور غاصب صہیونیوں کے خلاف حملے شدت اختیار کرگئے۔ اس طرح تل ابیب کے خلاف نیا فلسطینی محاذ کھل گیا جس پر قابو کرنا ناممکن تھا۔ 
مغربی کنارے اور غزہ میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مغربی کنارے صہیونی علاقوں کے متصل ہیں بنابراین اسرائیل کو آسانی کے ساتھ مسلح حملوں کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ صہیونی حکومتی اور فوجی حکام اس امر سے نہایت پریشان ہیں اسی لئے شرم الشیخ وغیرہ میں ہونے والے اجلاسوں میں مغربی کنارے پر قابو پانے کے حوالے سے مختلف امور پر غور کیا گیا۔

2۔ سیاسی عدم استحکام

2019 سے اب تک صہیونی غاصب حکومت میں پانچ انتخابات منعقد ہوچکے ہیں۔ اس عرصے میں تشکیل پانے والی کابینہ کی مدت بہت مختصر اور اتحادی حکومتوں کی حالت ناگفتہ رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان کمزور بنیادوں پر اتحاد قائم ہونے کی وجہ سے کابینہ جلد برخاست کی گئی۔ نتن یاہو کی موجودہ کابینہ سے پہلے ان کی مخالف بائیں بازو کی جماعتوں نے نفتالی بیٹ اور یائیر لاپیڈ کی سربراہی میں کابینہ تشکیل دی لیکن پہلی بار آٹھ جماعتوں پر مشتمل وسیع اتحاد قائم کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ جماعتیں سیاسی اور عقیدتی لحاظ سے ایک دوسرے سے متضاد نظریات رکھتی تھیں۔

نتن یاہو دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو متحد کرتے ہوئے کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے اور ان جماعتوں کے آپس میں موجود اختلافات بھی کسی حد تک کم ہوگئے۔ لیکن قابض حکومت کی بنیادوں میں موجود تضادات اور مشکلات کی وجہ سے بحران ختم نہ ہوسکا۔ گذشتہ چند سالوں کے واقعات اس حقیقت کی بخوبی نشاندہی کرتے ہیں کہ صہیونی حکومت کو درپیش سیاسی بحران انتخابات کے انعقاد اور دائیں بازو یا بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل کابینہ کی تشکیل سے حل نہیں ہوگا۔ اس بحران کی جڑیں گہری اور راہ حل بہت سخت ہے۔ اگر مناسب موقع پر اقدام نہ کیا جائے تو مکڑی کے جالے کا بکھر جانا یقینی ہے۔

3۔ صہیونی معاشرے میں موجود گہرا شگاف

گذشتہ چند مہینوں کے دوران مقبوضہ علاقوں میں باہر سے درآمد کئے گئے مختلف طبقات کے درمیان اختلافات اور خلیج میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مغربی اور مشرقی یہودیوں کے بنیادی اختلافات، سیکولر اور مذہبی طبقوں کی سوچ میں فرق پہلے سے ہی غاصب حکومت کو اندر سے کھارہا ہے۔ نتن یاہو حکومت کی پالیسیاں مخصوصا عدالتی اصلاحات نے ان حالات میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ تل ابیب کی سڑکیں نتن یاہو کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان میدان جنگ بنی ہوئی ہیں۔ 
مقبوضہ علاقوں میں موجود منظم جرائم پیشہ گروہوں کے بڑھتے ہوئے باہمی تنازعات اور ملک میں امن و امان بحال کرنے میں سیکورٹی فورسز کی ناکامی سے عوام کا نتن یاہو انتظامیہ پر اعتماد ختم ہوا ہے۔ صہیونی معاشرے کے اس بحران نے انتہا پسند نتن یاہو کی حکومت کو داخلی اور بیرونی سطح پر مشکلات سے دوچار کیا ہے۔
صہیونی مبصرین مسلسل اس معاشرے میں موجود اس شگاف کو صہیونی حکومت کے لئے خطرے کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیل کے اندر پنپنے والا یہ شگاف رفتہ رفتہ وسیع ہوکر اقتدار کے ایوانوں تک سرایت کرجائے گا اور آخر میں اسی شگاف کی وجہ سے صہیونی غاصب حکومت تباہ ہوجائے گی۔

4۔ دفاعی نظام کی کمزوری

صہیونی فوج اور سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی جانب سے اعلی حکام کو پیغام میں اسرائیل کی دفاعی صلاحیت میں کمی کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ پیغام کے مطابق غاصب حکومت کی دفاعی صلاحیت ختم ہورہی ہے۔ موجودہ بحران کے تسلسل اور اس میں شدت آنے سے ملک کو داخلی اور بیرونی محاذوں پر مزید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ 

اداروں نے مزید کہا ہے کہ عدالتی اصلاحات جیسے امور کی وجہ سے پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال سے دشمن قوتوں نے فائدہ لیتے ہوئے صہیونی حکومت کو داخلی مشکلات سے دوچار کیا ہے۔

5۔ مہاجرین کی واپسی کا رجحان اور اقتصادی بحران کا خدشہ

مقبوضہ علاقوں میں بحرانوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ مختلف ممالک سے ہجرت کرکے اسرائیل آنے والے لوگوں کو اپنے آبائی علاقوں میں واپس جانے پر مجبور کررہا ہے۔ حال ہی میں امریکی ادارے IATI نے اسرائیلی کمپنی کے ساتھ سروے کرنے کے بعد رپورٹ جاری کی ہے کہ اسرائیلی حکومت کے جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں کرنے والے نوے فیصد افسران اور ملازمین اپنے اثاثوں کو بیرون ملک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ان افراد نے غاصب اسرائیل میں جاری سیاسی بحران اور داخلی بدامنی کو اپنے فیصلے کی اصل وجہ قرار دیا ہے۔ 

امریکی ادارے نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ ان کمپنیوں اور اہلکاروں کے جانے سے اسرائیلی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور بحران سے دوچار ہوجائے گی۔ موجودہ حالات کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں کی خراب صورتحال کا اس بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ حال ہی میں اسرائیلی جوانوں کی ایک تنظیم نے سر اٹھانا شروع کیا ہے جس کا ہدف امن کی زندگی کی تلاش میں مقبوضہ علاقوں سے ہجرت کرنا ہے۔ اسرائیلی جوان اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ سیاسی لیڈر جوانوں کی مشکلات پر توجہ کرنے کے بجائے ذاتی مفادات کے حصول اور سیاسی لڑائی جھگڑوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے میں آبائی علاقوں میں واپسی ہی بہترین راہ حل ہے۔

6۔ صہیونی فوج کی ناتوانی

نتن یاہو کے دور حکومت میں صہیونی افواج کو درپیش بحرانوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ جب سیاسی جنگ کے شعلے بلند ہورہے تھے، نتن یاہو وزیر جنگ کو اپنے عہدے سے برخاست کرنا چاہتے تھے لیکن مختلف وجوہات کی بناپر اس فیصلے کو اب تک عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔
فوج کی مشترکہ مرکزی کمیٹی کے سربراہ ہرٹسی ہالیوی بھی اب تک فوج کو درپیش بحرانوں کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔ ان کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ نتن یاہو کابینہ میں جاری سیاسی بحران اور اختلافات ہیں۔ انہوں نے حکومت کو رپورٹ دی ہے کہ فضائیہ کے اہلکاروں اور رزرو فورسز کے جوانوں نے ملکی صورتحال اور سیاسی بحران کی وجہ سے فرائض منصبی ادا کرنے سے انکار کردیا ہے۔

فوج کی مرکزی کمیٹی کے سابق سربراہ گاڈی آئزنکوٹ نے کہا ہے اسرائیل کو 1973 کی جنگ کے بعد سے اب تک کی خطرناک ترین صورتحال درپیش ہے۔ فوج کی طاقت خطرے میں ہے۔ صہیونی معاشرے کی داخلی صورتحال شدت اختیار کرنا کسی بھی لحاظ سے غاصب اسرائیل کے لئے خوش آئند نہیں ہے۔

داخلی سلامتی کے ذمہ دار ادارے شاباک کے سربراہ رونین بار نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے اسرائیل کی سیکورٹی بہت حساس اور پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہے۔ صہیونی غاصب حکومت مخالف کاروائیوں کے خطرات کا بار بار اظہار کیا جارہا ہے۔

خلاصہ:

نتن یاہو کی کابینہ غاصب اسرائیل میں جاری بحران کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ پہلے سے جاری بحرانوں کو حل کرنے کے بجائے اپنی خراب پالیسی سے بحرانی صورتحال میں شدت پیدا کی ہے۔ صہیونی حکومت میں جاری بحران نے امریکی صدر جوبائیڈن کو بھی پریشان کردیا ہے۔ انہوں نے صہیونی حکام کو انتباہ کیا ہے۔ البتہ امریکہ کی پریشانی کی بنیادی وجہ اسرائیل سے زیادہ خطے میں اپنے مفادات ہیں۔ موجودہ صورتحال کی وجہ سے موساد کے سابق سربراہ تامیر پارڈو نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل نے اپنے ہاتھوں سے اپنے سقوط کا سامان فراہم کیا ہے۔ صہیونی فوج کے انٹیلی جنس ادارے کے سابق سربراہ عاموس گلعاد نے بھی بحران پر اظہار نظر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اس محل کی مانند ہے جس کو چوہے اندر سے کھارہے ہیں۔

لیبلز