عراق کے سابق وزیر اعظم نے اپنے ایک مضمون میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کی بنیاد رکھنے میں شہید قاسم سلیمانی کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔

مہر خبر رساں ایجنسی نے "صوت العراق" سے نقل کیا ہے کہ عراق کے سابق وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے اپنے ایک مضمون میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی کہ اس سلسلے میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کا کردار نمایاں اور بنیادی ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بیجنگ میں طے پانے والے حالیہ معاہدے کی تاریخی جڑیں ہیں اور اس اسٹریٹجک معاہدے کے حصول میں بہت سے لوگوں کا کردار شامل ہے۔ یہ معاہدہ خطے اور دنیا کا چہرہ بدل سکتا ہے۔

عادل عبدالمہدی مزید لکھتے ہیں کہ میں 2019 میں سرکاری دورے پر چین گیا تھا۔ چینی حکام سے ملاقات سے پہلے جنرل قاسم سلیمانی نے مجھے فون کیا اور کہا، "کیا آپ سعودی عرب جا سکتے ہیں؟" میں نے پوچھا کس مقصد کے لیے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کے لیے اور یہ ایک فوری معاملہ ہے۔ میں نے کہا کہ بغداد واپسی کے بعد سعودی عرب چلا جاؤں گا۔ میں نے چینی فریق کو جنرل سلیمانی کی اس درخواست سے آگاہ کیا۔

انہوں نے لکھا ہے کہ جنرل سلیمانی جن مسائل کو اٹھانا چاہتے تھے یہ تھے: ہم قومی اتحاد کی حکومت کے ذریعے یمن کے بحران کو حل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، ہم سعودی عرب اور عراق کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کا خیرمقدم کرتے ہیں، خطے سے باہر کے ملکوں کے برعکس پڑوسی ممالک سے بات چیت آسان ہے، 10 سال تک کشیدگی کم کرنے کا عزم، باہمی احترام، خلیج فارس میں میری ٹائم سیکورٹی کو یقینی بنانا، شام، لیبیا اور دیگر خطوں میں کام کے مشترکہ طریقہ کار کا حصول اور وزرائے خارجہ کی ملاقات۔

عبدالمہدی نے مزید لکھا کہ سعودیوں نے میرے سعودی عرب کے سفر کی وجہ پوچھی تو میں نے انہیں وہ وجہ بتائی۔ جب انہیں پتہ چلا کہ جنرل سلیمانی نے اس مسئلے کی درخواست کی ہے تو انہوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ عراق کے ذریعے سعودی عرب اور ایران کے درمیان متعدد تجاویز کا تبادلہ ہوا اور یہ طے پایا کہ جنرل سلیمانی بغداد واپس آنے پر اس سلسلے میں ایرانی حکام کا جواب پیش کریں گے،بدقسمتی سے داعش پر فتح کے کمانڈروں کے خلاف امریکہ کی بزدلانہ کارروائی ہوئی اور اس دوران جنرل سلیمانی کے کاغذات پر مشتمل بیگ گم ہو گیا۔