مجتبی یوسفی نے مہر خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بارے میں کہا کہ علاقائی طاقت کا ایک عنصر خطے کے ملکوں کی جانب سے سفارتی معاملات میں باہمی افہام و تفہیم اور انہیں حل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ برتاو باہمی احترام کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ خطے سے باہر کے ممالک جیسے کہ امریکہ، عموماً اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہمارے خطے کی طرف دیکھتے ہیں خاص طور پر توانائی کے شعبے میں اور جب اپنے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں یا تو خطے میں موجود ان ممالک کو گرا دیتے ہیں یا پھر ان کے ٹکڑے کر کے اور خانہ جنگی کے ذریعے منتشر کر دیتے ہیں، وہ کام جو انہوں نے سوڈان میں کیا۔ یہ ان ملکوں کا تجربہ ہے جنہوں نے علاقے سے باہر کی طاقتوں پر اپنی امیدیں باندھیں۔
پارلیمنٹ میں اہواز کے نمائندے نے کہا کہ یہ معاہدہ جو ایران اور سعودی عرب کے درمیان سات سال کے بعد سفارتی تعلقات کے آغاز کے لیے کیا گیا ہے، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خطے کے ان دو بڑے اور اسلامی ملکوں میں سلیقے کا جس قدر بھی اختلاف پایا جاتا ہو، ان کے درمیان بہت سے مشترکات ہیں۔
یوسفی نےمزید کہا کہ اس معاہدے سے ایران کی مضبوط علاقائی سفارت کاری دنیا پر عیاں ہوئی اور یہ معاہدہ اس نقطہ نظر کا نتیجہ ہے کہ ہمیں غیر علاقائی ملکوں کی طرف دیکھنے کے بجائے علاقائی سفارت کاری کو فعال کرنا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ دونوں ملکوں کے ماہرین اور مفکرین اپنے خیالات سے ایران سعودی تعلقات میں اتحاد اور ترقی لائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعض مغربی ممالک ہمیشہ مسلم، ایشیائی اور افریقی ممالک کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں اور تقسیم کرو اور حکومت کرو جیسی سیاست پر عمل پیرا ہیں۔ یقیناً امریکہ، صہیونی غاصب حکومت اور بعض دیگر ملک جو نہیں چاہتے کہ خطے کے مشترکہ مفادات، ایران اور سعودی عرب اور عالم اسلام کا اتحاد ہو، اس معاہدے سے ناراض ہیں اور یہ معاہدہ ان کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
پارلیمنٹ میں اہواز کے عوام کے نمائندے نے تاکید کی کہ یہ معاہدہ یقیناً علاقے کے ممالک کے مفاد میں ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ خطے کے ممالک کے درمیان سلیقے کے لحاظ سے اختلافات موجود ہیں لیکن ان اختلافات کو باہمی تعاون کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔
اجراء کی تاریخ: 12 مارچ 2023 - 15:24
ایرانی پارلیمنٹ کے رکن نے مہر نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ خطے کے ممالک کے مفاد میں ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنازعات کو علاقے کے اندر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔