معروف ایرانی تجزیہ کار، سیاسی امور کے ماہر اور تہران یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر صادق کوشکی نے مہر کے نامہ نگار کو ایک انٹرویو دیا اور میونخ سیکورٹی کانفرنس اور اس اجلاس میں ایران کو مدعو نہ کیے جانے کے حوالے سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں کے دوران ہم نے جو متعدد سیکورٹی اجلاس ہوتے ہوئے دیکھے ہیں وہ یورپی اور خلیج فارس کے ملکوں سمیت مختلف ممالک میں ہوئے ہیں درحقیقت ان کی منصوبہ بندی اس مخصوص مقصد کے ساتھ کی جاتی ہے کہ مختلف شخصیات کو ان اجلاسوں میں بلایا جائے اور ان کے مختلف خیالات کو پیش کیا جائے جبکہ ان کی سائڈ لائنز پر دوطرفہ اور کثیر جہتی مذاکرات اور مکالمات بھی انجام پائیں۔
انہوں نے مزید کہا ان اجلاسوں کا ایک اور خاص کام ان کا پروپیگنڈہ اور تشہیراتی مقصد ہے۔ عملی طور پر اس ماحول میں جو ملک اور ادارہ اس اجلاس کو منعقد کرتا ہے وہ دنیا کے سیاسی اور سفارتی ماحول کو اپنے مد نظر رخ کی طرف موڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایرانی سیاسی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ البتہ یہ اجلاس غیر رسمی اجلاس ہوتے ہیں اور محض ملاقات اور رائے کے تبادلے کا پلیٹ فارم ہوتے ہیں۔ ان اجلاسوں میں فیصلے نہیں کیے جاتے جیسے کہ ڈیووس اجلاس ہے جہاں اقتصادی نقطہ نظر ہوتا ہے۔
تہران یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر نے آخر میں کہا کہ لہٰذا جب مغرب پہلوی جیسی شخصیات کو میونخ کانفرنس میں مدعو کرتا ہے تو درحقیقت وہ اسے ایران کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے درپے ہے اور یورپی ملکوں کا اس طرح کے اجلاسوں میں ایران اور روس مخالف موقف اختیار کرنا فطری امر ہے، لہٰذا انہیں سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔