حضرت فاطمہ (س) نے اپنے بچوں کی پرورش میں قرآن مجید کا نسخہ اپنایا اور جو چیز فاطمہ (س) کو فاطمہ بناتی ہے وہ بنیادی طور پر قرآن کی معرفت و بصیرت ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی- دین و اندیشہ ڈیسک - آج 3 جمادی الثانی یوم شہادت حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا ہے۔ اہل بیت (ع) کی ثقافت اور طرز زندگی سے دوری تمام انفرادی، سماجی اور خاندانی تضادات اور بے ضابطگیوں کی سب سے بنیادی وجہ ہے۔ اگر ہم مکتب اہل بیت (ع) کے معیارات اور اصولوں کی بنیاد پر زندگی کے معیارات کا تعین کریں اور اپنی زندگی ان معیارات کی بنیاد پر تشکیل دیں تو ہم نے اسے ایک مضبوط بنیاد پر رکھ دیا ہے جو پھر نہ پھسلے گی اور نہ ہی کمزور ہوگی۔

زندگی کے تمام پہلوؤں کو سنوارنے کے لیے ایسے اعلیٰ نمونے ہونے چاہئیں جو ہر ایک کے لیے مثال بن سکیں۔ ائمہ اطہار علیہم السلام اپنے لیے نمونہ رکھتے تھے، امام زمان علیہ السلام اپنے لیے ایک نمونہ رکھتے ہیں اور اس اسوہ کے طرز عمل کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسو اللہ ﴿ص﴾ کی دختر فاطمہ زہرا ﴿س﴾ میری اسوہ ہیں۔ خواتین کو اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ان کی رول ماڈل انسان کامل حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں جو ایک ایک مثالی خاتون ہیں۔ تمام اہل بیت اور  عظیم علماء کا رول ماڈل فاطمہ ہیں۔ انسان کامل کے لیے فاطمہ کے اسوہ ہونے کے فلسفے اور راز کی بغور تحقیق کی جانی چاہیے اور یہ چیز فاطمہ (س) اور ان کے اعلیٰ مقام و منزلت کی معرفت کے سوا حاصل نہیں ہوسکتی۔

لہٰذا حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی کے بارے میں بہت سی ناشناختہ جہتیں اور خوبصورتیاں ہیں جو ابھی تک معلوم نہیں ہیں۔ حضرت فاطمہ علم و معرفت کا سمندر ہیں، اس لیے خدا نے ان کا تعارف بھی لفظ "الکوثر" سے کرایا۔ علم کی خوبصورتی اور جمال فاطمہ کے وجود میں نہفتہ ہے۔  اس بنا پر حضرت زہرا (س) کے طرز زندگی اور بچوں کی اخلاقی تعلیم پر اس کے اثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے ہم نے حوزہ علمیہ کے بلند پایہ استاد اور مرکز مطالعات کے شعبہ تاریخ و سیرت کے ڈائریکٹر حجۃ الاسلام حسن لو سے گفتگو کی۔ جس نے فاطمہ کو نہیں پہچانا اسے قرآن کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی

حجۃ الاسلام حسن لو نے مہر کے رپورٹر کے ساتھ گفتگو میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اپنے والد گرامی کی زینت قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضرت فاطمہ کے وجود کو سمجھنے کے لیے قرآن اور قرآن کی تفسیر سے مدد لینی چاہیے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ قرآن کریم حضرت فاطمہ کے وجود کے مختلف پہلووں کی تفسیر ہے تو ہم مبالغہ آرائی نہیں کر رہے۔ فاطمہ سرّ اللہ ہیں اور قرآن کلام اللہ ہے جس نے فاطمہ کو نہیں پہچانا اسے قرآن کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی۔ فاطمی زندگی کی خوبصورتیوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ 

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے طرز زندگی کی خوبصورتی ان کے بانوئے دو عالم کے عظمت و بلندی کے لامتناہی سمندر کا ایک رخ ہے۔ حضرت زہرا (س) کو پہلے سے بڑھ کر مسلمان اور دنیا کی تمام خواتین کے لیے ایک خوبصورت نمونے کے طور پر پیش کرنا ضروری ہے۔

حضرت فاطمہ کا اسوہ ہونا اس حقیقت کی بنیاد پر ہے کہ فاطمہ (س) کا طرز عمل آپ کے قرآنی علم کا عکاس ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے بارے میں فرمایا کہ «کان خلقه القرآن» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق، رفتار اور سیرت قرآن تھی اور دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے اپنی بیٹی کے بارے میں فرمایا کہ «فاطمه بضعة منی» فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔ پس یہ حدیث بذات خود فاطمہ کے وجود کی حقیقت اور ان کے مقام کو ظاہر کرتی ہے۔

حجة الاسلام حسن لو نے اولاد کی پرورش کے متعلق کہا کہ حضرت فاطمہ (س) نے بچوں کی پرورش کے بارے میں اپنے لائف پلان میں قرآن کا نسخہ رکھا ہے۔ جو چیز فاطمہ﴿س﴾ کو فاطمہ بناتی ہے پہلے درجے میں ان کی عظیم قرآنی بصیرت و معرفت ہے۔ فاطمہ (س) حسنین (علیہما السلام) کی اسی بصیرت و بینش کے ساتھ تربیت کرتی ہیں۔ مشہور ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا کہ میری والدہ رات سے صبح تک نماز پڑھتی رہتی تھیں۔ میں انہیں ہر پڑوسی کے لیے دعا کرتے دیکھا لیکن آپ نے ہمارے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ میں نے والدہ سے کہا کہ آپ نے ہمارے بارے میں کچھ کیوں نہیں کہا۔ یہاں حضرت فاطمہ ﴿س﴾ نے وہ سنہری اور نورانی جملہ فرمایا کہ میرے پیارے بیٹے ’’الجار ثم الدار‘‘ یہ وہی نجات دہندہ طرز فکر ہے جو کہ ہمارے معاشرے اور انسانی معاشروں سے غائب ہوچکا ہے۔ یہی قرآنی اور آسمانی علمی جملہ "پہلے پڑوسی پھر گھر " ہے جو پوری دنیا کی تربیت کے لیے کافی ہے۔اگر یہ مختصر جملہ انسانی زندگی کا نصب العین ہو تو دنیا میں ان جرائم اور ناانصافیوں کا انبار کبھی نہیں لگے گا۔ اگر تمام مائیں اپنے بچوں کو یہی ایک سنہری جملہ سکھائیں اور یہ ان کی روحوں کا حصہ اور زندگی کا نصب العین بن جائے تو بنی نوع انسان کے لیے حضرت زہرا (س) کو پہلے سے بڑھ کر مسلمان اور دنیا کی تمام خواتین کے لیے ایک خوبصورت نمونے کے طور پر پیش کرنا ضروری ہےحیرت انگیز پیش رفت وجود میں آجائے گی اور معاشروں کی اصلاح ہو جائے گی۔ تاریخ میں کوئی ایسا خالص بیان نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم فاطمی طرز فکر سے سبق لیں۔ یہ فاطمی تصور کائنات ہے جسے اسوہ بننا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ اگر فاطمہ (س) کے بارے میں کوئی لفظ، کلمہ یا آیت نہ ہو اور یہ تمام آیات اور احادیث ایک طرف رکھ دی جائیں، یہی ایک جملہ جو سنی اور شیعہ دونوں معتبر ذرائع سے نقل ہوا ہے کہ "پہلے پڑوسی پھر گھر" آپ کی گہری بصیرت اور علم کا چمکتا ہوا اثر ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔

 آپ نے ایسی اولاد کی تربیت کی کہ جنہوں نے قرآنی بصیرت کے ساتھ اپنے آپ کو قربان کر کے خدا کے دین کی حفاظت کی۔ آپ نے نے حسن (ع) اور حسین (ع) اور زینب (س) اور ام کلثوم جیسے بچوں کی پرورش کی جن میں سے ہر ایک نے عظیم کردار ادا کیا، خدا کی راہ میں کردار ادا کیا اور خدا کے دین کو سربلند کیا۔ فاطمہ ﴿س﴾ نے اپنے طرز عمل سے اپنے بچوں کو علم، ہمت، تقویٰ اور پرہیزگاری سکھائی۔ فاطمہ ﴿س﴾ کے بچوں کو عبادت اور خدمت کا شوق تھا، یہ محبت انہوں نے اپنی ماں سے سیکھی۔ جب ان کی والدہ فجر کی نماز کے لیے کھڑی ہوتیں تو بچوں نے عبادت سے محبت کرنا سیکھا۔ دوسروں کو خود پر مقدم کرنا بہت بڑا سبق ہے جو فاطمہ نہ صرف بچوں کو دعا میں سکھاتی ہیں بلکہ اپنے کپڑے اور کھانا غریبوں کو دینے میں بھی سکھاتی ہیں، جہاں اس عظیم ہستی اور ان کے گھر والوں کی شان میں سورۃ الانسان ﴿سورہ دہر﴾ نازل ہوئی، جب آپ نے اپنا کھانا یتیم، اسیر اور مسکین کو عطا کردیا جبکہ خود آپ اور آپ کے بچے روزے کی حالت میں چند دن بھوکے رہے تھے۔ معاشرے کا نمونہ، مثال اور رول ماڈل اس طرح ہونا چاہئے جو اپنا پیٹ بھرنے سے پہلے بھوکوں کے پیٹ بھرنے کو مقدم سمجھے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اس خاندان پر خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ حضرت فاطمہ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی یہ ایثار اور قربانی سکھاتی ہیں۔

حضرت فاطمہ نے پوری شجاعت کے ساتھ دین کے دفاع میں خطبہ دیا اور اس راہ میں تکلیفیں بھی برداشت کیں لیکن حق بات کہنے سے کبھی نہیں ڈریں۔ فاطمہ وہ پہلی ہستی ہیں جنہوں نے دین میں پیدا ہونے والے انحراف کے خلاف آگاہی پھیلائی اور اس راہ میں شہید ہوئیں۔ فاطمہ اپنے بچوں کو بہادری اور شہادت کا سبق سکھاتی ہیں۔ امام حسین (ع) نے اپنی والدہ سے جو ہمت و شجاعت سیکھی وہ کربلا میں ظاہر ہوئی اور حسین (ع) نے اپنی والدہ سے سیکھا کہ دین پر سودے بازی نہیں کرنی چاہئے۔ کوفہ میں فاطمہ (س) کا خطبہ فدکیہ زینب اور ام کلثوم کی زبانوں پر متجلی ہوا اور  ظالموں اور جابروں کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ عزت و احترام جو زینب اور ام کلثوم نے اپنی والدہ سے سیکھا، کوفہ اور شام میں سب کو سکھایا کہ دین کی راہ میں صبر کرنا چاہیے اور تمام عزیزوں اور جانوں کو قربان کردینا چاہیے۔ حضرت فاطمہ نے پوری شجاعت کے ساتھ دین کے دفاع میں خطبہ دیا اور اس راہ میں تکلیفیں بھی برداشت کیں لیکن حق بات کہنے سے کبھی نہیں ڈریں۔

انہوں نے فاطمہ (س) کی عفت و عصمت کے بارے میں کہا کہ حضرت ام سلمہ جنہوں نے بچپن میں فاطمہ (س) کے ماں کا کردار بھی نبھایا ہے، قسم کھاتی ہیں کہ فاطمہ (س) بچپن سے ہی پاک دامن اور باحیا تھیں۔ عفت اور حیا انسانوں کے لیے ایک قرآنی درس ہے۔ قرآن میں عفت اور حیا کی ایک مثال مردوں اور عورتوں کے لیے موزوں لباس پہننا ہے۔ فاطمہ (س) لباس اور حیا میں قرآنی آیات مظہر ہیں؛ فاطمہ نے حجاب کی آیات اور قرآن کا یہ سبق اچھی طرح سیکھا اور اپنے بچوں کو سکھایا۔ فاطمہ کا حجاب و عفت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے مرد اور عورت دونوں کے لیے عفت و حیا کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم اپنے صحابہ سے پوچھتے ہیں کہ کون جانتا ہے کہ مومن عورت کے لیے بہترین عمل کیا ہے؟ کوئی جواب نہ دے سکا لیکن جب علی﴿ع﴾ بیٹی سے باپ کا یہ سوال پوچھتے ہیں؛ فاطمہ کہتی ہیں کہ عورت کے لیے بہترین عمل یہ ہے کہ وہ نہ کسی غیر محرم کو دیکھے اور نہ کوئی غیر محرم اسے دیکھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فاطمہ سے یہ سنا تو فرمایا: اس کا باپ اس قربان ہو، یہی وہ بینش ہے جو زینب (س) جیسی بیٹی کی پرورش کرتی ہے جنہیں عاشورا سے پہلے کسی نے کوفہ میں بھی عوامی سطح پر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن اسیری کے بعد آپ نے کمال شجاعت و شہامت سے کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد کے محل کو ہلا کر رکھ دیا اور شام میں یزید کے محل کو اس کے سر پر ڈھا دیا اور اموی حکومت کو ناجائز قرار دے کر پوری دنیا تک اپنے بھائی کا پیغام پہنچایا جبکہ یزید امام حسین کو قتل کر کے اپنے آپ کو جائز اور انہیں غلط دیکھانا چاہتا تھا؛ تاہم نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔

آخر میں حجة الاسلام حسنلو نے اشارہ کیا کہ فاطمہ (س) نے دین،  لوگوں اور معاشرے کے حقوق کا دفاع کیا لیکن حیا نے کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا، تاریخ میں لکھا کہ جس دن آپ مسجد النبی میں خطبہ فدکیہ دیا مسجد میں چادر اور حجاب کے ساتھ داخل ہوئیں اور ایسا خطبہ دیا جس نے غصب کو ناجائز قرار دیا نبوت کی میراث کا اعلان کیا اور اس کی پاسداری کی۔ اس بینش و بص

لیبلز