قطر کی وزارت خارجہ نے 2022 ورلڈ کپ کی اختتامی تقریب میں لیونل میسی کے روایتی عرب لباس پہننے کے بارے میں یورپی میڈیا میں ہونے والے حالیہ تنازع پر ردعمل کا اظہار کیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عالمی خبری ادارے کی ویب سائٹ نے خبر دی ہے کہ  ارجنٹائن کی جیت کے ساتھ ختم ہونے والے قطر 2022 ورلڈ کپ کی اختتامی تقریب میں ایک واقعہ پیش آیا جو یورپی میڈیا کو اچھا نہیں لگا۔

خیال رہے کہ ورلڈکپ کی اختتامی تقریب کے دوران امیرِ قطر نے ٹرافی اٹھانے سے قبل ارجنٹائن کے کپتان لیونل میسی کو روایتی عربی لباس پہنایا۔بعد ازاں لیونل میسی بھی اسی لباس کے ساتھ پلیٹ فارم پر گئے اور ورلڈ کپ کی فاتح ارجنٹائن کے دیگر کھلاڑیوں کے مجمع میں ایسے یادگار لمحوں میں ورلڈ کپ ٹرافی کو ہاتھوں میں اٹھایا کہ جنہیں کبھی بھلایا نہیں جائے گا۔

تاہم امیر قطر کا میسی کو یہ روایتی لباس پہنانے کا عمل براعظم یورپ کے میڈیا کو پسند نہیں آیا اور شروع ہی سے اس تقریب کے خلاف شدید تنقید کی گئی۔

قطر کے نائب وزیر خارجہ لولوہ الخاطر نے اس بارے میں ایک ٹویٹ میں لکھا کہ یورپ میں میڈیا والوں پر ایک پاگل پن کی کیفیت طاری ہوگئی ہے، انہوں نے تنقید کے لیے منہ کھولے اور میسی کے روایتی عربی لباس (البشت) پہننے کے بعد دنیا کی مختلف قوموں کی ثقافت کے بارے میں اپنے استکباری عقدوں کو ظاہر کیا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ یورپی لوگ خود تعلیم سے فراغت کی تقریب میں سیاہ ردا پہن کر یہ رسم ادا کرتے ہیں جو کہ بنیادی طور پر ایک عرب روایت ہے جو 859 عیسوی میں قائم ہوئی تھی۔قطر کے نائب وزیر خارجہ نے مزید تاکید کی کہ اس معاملے کی ستم ظریفی یہ ہے کہ تمام تعلیم سے فراغت اور گریجویشن تقاریب میں خود یورپی لوگ اس تقریب کو انجام دیتے ہیں جبکہ یہ ایک عرب روایت ہے جس کی بنیاد  859 عیسوی سے "فاطمہ الفہری" کی قائم کردہ القرویین یونیورسٹی سے پڑی ہے۔

خیال رہے کہ القرویین یونیورسٹی یا جامعہ القرویین مراکش کے شہر فاس میں واقع ہے جس کی بنیاد 859ء میں رکھی گئی تھی جہاں آج تک تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ جامعہ القرویین دنیا کی سب سے قدیم جامعہ ہے اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز اسے "اب تک موجود دنیا کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ" قرار دیتا ہے۔

اس جامعہ کو جو ایک مسجد کے طور پر بنائی گئی تھی محمد الفہری نامی ایک دولت مند تاجر کی صاحبزادی فاطمہ الفہری نے 859ء میں تعمیر کروایا تھا جبکہ اس کی بہن مریم نے بھی اپنی تمام دولت اس پر خرچ کی۔ یہ واقعہ مسلم تہذیب میں عورتوں کے کردار اور ان کی قربانیوں کا عکاس ہے اور موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا بھرپور جواب بھی۔

قابل ذکر ہے کہ تعلیم سے فراغت کے موقع پر دنیا بھر میں زیب تن کیا جانے والا لباس روایتی عربی لباس سے ماخوذ ہے اور اسے معروف اسلامی دانشور ابن سینا کے لباس کی علامت کے طور پر پہنا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ مغرب میں ابن سینا ﴿ابو علی سینا﴾ کو اویسنا کے نام سے جانا جاتا ہے۔