ایرانی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کی رکن نے مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہ امریکی صدر اندرونی مسائل کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے اسی لئے امریکہ ہم سے زیادہ مذاکرات کیلئے بےچین ہے۔

سارا فلاحی نے مہر نیوز کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں رابرٹ مالی سمیت بعض امریکی حکام کے مؤقف کا ذکر کرتے ہوئے کہ مذاکرات امریکہ کی ترجیح نہیں، کہا کہ امریکیوں کا ہمیشہ سے دوہرا رویہ رہا ہے، امریکی ہمیشہ سے کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی حکام بظاہر یہ کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ مذاکرات ان کیلئے ترجیح رکھتے لیکن پس پردہ انہوں نے کئی بار اسلامی جمہوریہ ایران سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کو کہا ہے۔ توانائی کے مسائل سمیت اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے امریکہ کو مذاکرات کی اشد ضرورت ہے۔

قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کی رکن نے مزید کہا کہ امریکیوں نے بارہا ہماری مذاکراتی ٹیم سے کہا ہے کہ وہ ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے لئے کوشش کریں اور عین اس وقت کچھ امریکی حکام کہتے ہیں کہ جے سی پی او اے ان کی ترجیح نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہمیشہ سے ہمیں پیغامات بھیجتا رہا ہےکہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپس آنا چاہتا ہے۔ امریکیوں کا ظاہر اور باطن مختلف ہے

ایرانی شہر ایلام سے قومی اسمبلی میں منتخب رکن نے کہا کہ میں وزارت خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہوں کہ امریکیوں کا ظاہر اور باطن مختلف ہے ایک طرف سے کہتے ہیں کہ مذاکرات کرنا نہیں چاہتے لیکن دوسری جانب مختلف ثالث بھیجتے ہیں اور کئی بار امریکی ثالثوں نے اسلامی جمہوریہ ایران سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی دعوت دی ہے۔

فلاحی نے کہاکہ اگر ایٹمی مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو امریکیوں کو اپنی پالیسیوں پر ضرور نظر ثانی کرنی چاہیے۔ امریکی صدر بائیڈن اس وقت اندرونی مسائل کی وجہ سے شدید دباؤ میں ہے اور وہ ہم سے زیادہ مذاکرات کا خواہشمند ہے۔

پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی کی رکن نے مذاکرات کو جاری رکھنے کے لئے ایران کی تجاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے مذاکرات کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کی ہیں اور ان پر ڈٹے رہیں گے۔ ہماری تجاویز مکمل طور پر معقول ہیں

انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ کے مطابق انہوں نے ہماری تجاویز کا جائزہ لیا ہے لیکن وہ ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی تمام تجاویز سے متفق ہیں کہ نہیں۔ لیکن مذاکرات میں ہماری تجاویز مکمل طور پر معقول ہیں اور ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ اگر آپ جے سی پی او اے کو بحال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایران کی تجاویز قبول کرنا ہوں گی کیونکہ امریکہ خود جے سی پی او اے سے دستبردار ہوچکا ہے اور انہیں اپنے وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے ایران کو ضمانت دینا ہوں گی۔