رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ دفاع مقدس نے اس حقیقت کو ثابت کر دیا کہ ملک کی حفاظت اور ڈیٹرینس کا حصول ہتھیار ڈالنے سے نہیں بلکہ مقاومت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ دفاع مقدس ﴿سابق عراقی آمر صدام حسین کی طرف سے ایران پر آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ﴾ کی مناسبت سے جنگ کے کمانڈروں، سابق فوجیوں اور شہداء کے اہل خانہ کے ایک گروپ نے آج بدھ کی صبح رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے حسینیہ امام خمینی﴿رہ﴾ میں ملاقات کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا اس ملاقات کے دوران خطاب ان کے دفتر کی آفیشل ویب سائٹ KHAMENEI.IR  سے وابستہ سوشل میڈیا اکاونٹس اور سرکاری ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کی گئی جبکہ صوبائی مراکز سے بعض سابق کمانڈرز اور فوجی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اس پروگرام میں شامل ہوے۔

رہبر معظم کے خطاب کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:

ملاقات کے دوران آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ یہ ملاقات اس حسینیہ میں ہونے والی بہترین اور مفید ترین ملاقاتوں میں سے ایک ہے۔ سابقہ فوجیوں اور ملک کے لئے لڑنے والی کی عزت افزائی کرنا سب کا فریضہ ہے۔ دفاع مقدس کا زمانہ ایک پرجوش، واقعات سے بھرپور، بامعنی اور فائدے سے معمور دور ہے اور یہ ان واقعات میں سے ہے جو گزشتہ کل، آج اور آنے والے کل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

- سابق فوجی "السبقون السابقون" کا مصداق ہیں یعنی انہوں نے ضرورت کو دوسروں سے پہلے پہچانا اور سمجھا پھر اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے، وہ بھی جنگ اور جہاد و قربانی کے کڑے میدان میں۔

- جتنا وقت گزرے گا، امور اچھی طرح سے انجام دیے جائیں گے اور نتائج پر توجہ دی جائے گی، اتنا ہی یہ شعور اور آگہی بڑھے گی اور مقدس دفاع زیادہ پہچانا جائے گا۔

- نئی نسل کو دفاع مقدس کے بہت سے مسائل کا علم نہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ جس طرح آپ اور میں حادثے میں موجود تھے اور ہمیں حقائق کا علم ہے، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ آج کی نسل کو بھی ان واقعات کا علم ہو۔

- میں نوجوانوں سے کسی حد تک جڑا ہوا ہوں اور مشاہدہ کرتا ہوں کہ وہ گفتگو میں بعض اوقات دفاع مقدس کے مسائل کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہیں۔

- دفاع مقدس کے جن حقائق کے بارے میں آج ہم بات کر تے ہیں وہ صرف دعویٰ نہیں ہیں بلکہ مقابل فریق بھی اس کا اعتراف کرتا ہے۔

- ایک دن ہم نے دعویٰ کیا تھا کہ تمام ممالک اسلامی جمہوریہ کے خلاف مسلط کردہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ آج وہ تمام ممالک اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔

- اسلامی انقلاب کے بعد ایران پر عراق کا حملہ غیر متوقع نہیں تھا۔ یہ درست ہے کہ صدام حسین [سابق عراقی ڈکٹیٹر] نے حملہ کیا لیکن صدام کے پیچھے عالمی استکبار تھا اور تمام استکباری ممالک نے مسلط کردہ جنگ میں صدام کی مدد کی۔

- فوجی حملہ اور جنگ ایک پڑوسی کی طرف سے انجام پانا تھا اور انہیں وہ پڑوسی مل گیا۔ طاقت اور مقام کے دیوانے کو مجبور کیا گیا اور جنگ پر اکسایا گیا۔ یہ فوجی اقدام غیر متوقع نہیں تھا اور قدرتی طور پر اسے ہونا ہی تھا۔

- انقلابی نظام پر ان ملکوں کا حملہ بالکل فطری تھا کیونکہ وہ ایران کے اسلامی انقلاب سے سخت غضبناک تھے۔ اس انقلاب نے وہ کام کیے جن کا ہمیں بھی کوئی زیادہ احساس نہیں تھا لیکن عالمی استکبار نے ان کو محسوس کرلیا تھا۔

- اب کچھ لوگ کہیں گے کہ تم نے عراق سے جنگ کیوں لڑی؟ گویا کہ ہم نے عراق پر لشکر کشی کی ہو۔ یا خرمشہر کی فتح کے بعد عراق میں کیوں داخل ہوئے اور جنگ جاری رکھی؟ عراق نے [جنگ کے خاتمے کی ] قرارداد مان لینے کے بعد عراق نے ہم پر دوبارہ حملہ کیا۔ اس کے بعد مرصاد آپریشن کا معاملہ شروع ہوا۔

- یہ سمجھتے ہیں کہ خرمشہر کے واقعے کے بعد اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ بیٹھ جاتے تو معاملہ ختم ہو جاتا، [برعکس] بلکہ دشمن نے اس وقت ابھی ابتدا کرنی تھی۔ اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ اظہار خیال کرنا ان مصیبتوں اور المیوں میں سے ایک ہے جو موجود ہیں۔ تسلط پسند نظام ہماری قوم کے گھٹنے ٹیکانا چاہتا تھا۔

- جن حصوں کو ایران سے الگ کرنا چاہتے تھے وہاں کے لوگ کھڑے ہو گئے اور عرب ہونے اور ہم زبان ہونے کے فریب اور وسوسوں میں نہ آئے۔

- میں نے خود اہواز کے آس پاس ایک عرب خاندان کو دیکھا جو بعثیوں کے جانے کے بعد ہمیں دیکھ کر گویا کہ جشن منا رہے رہوں، خوش ہو رہے تھے۔ وسوسے ان لوگوں کو سست نہیں کر سکے تھے۔

- ایک اور کارنامہ قوم کا اتحاد تھا۔ مقدس دفاع آیا اور لوگوں کو آپس میں جوڑ کر متحد کردیا۔

- ملک کے عسکری اقتدار اور قوت کا مسئلہ دفاع مقدس کا ایک اور کارنامہ تھا۔

- اگر مقدس دفاع نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ سپاہ پاسداران کا جسم و پیکر بھی باقی نہ رہتا۔

- مسلح افواج کی مقبولیت اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک پیش رفت کی رفتار کم نہ ہو۔ رکنا نہیں چاہئے، رکنے کا مطلب ہے پیچھے رہ جانا۔

- آج ہم عسکری میدان میں ڈیٹرنس اور باز رکھنے کے مرحلے تک پہنچ چکے ہیں۔

- دفاع مقدس میں ملموس طور پر تدبیر اور عقلانیت موجود تھی۔

- عسکری حکام، حکومت اور پارلیمنٹ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلح افواج کی حمایت ایک اہم معاملہ ہے۔

- دفاع مقدس نے ایرانی قوم کے لیے ایک اصول ثابت کر دیا کہ ملک کی حفاظت اور حملے سے باز رکھنا ﴿ڈیٹرینس﴾ مقاومت سے حاصل ہوتا ہے، تسلیم ہونے اور ہتھیار ڈالنے سے نہیں۔

- مقاومت کرنے کا یہ احساس اندرونی طور پر اطمینان اور خود اعتمادی پیدا کرنے کا سبب بنا اور اس نے دشمن کو بھی سمجھادیا کہ اپنے اندازوں اور تخمینوں میں ملک کی اندرونی طاقت اور مقاومت کو بھی شمار کرے۔

- پورے آٹھ سالہ عسکری نقل و حرکت کے دوران عقلانیت اور تدبیر ﴿عقلمندی اور سمجھداری﴾ ملموس طور پر موجود تھی۔

- ایک اور حقیقت جنگ کی صحیح حکایت پیش کرنا ہے۔ ہمارے نوجوانوں اور جوانوں کو دفاع مقدس کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے جس نظر سے آپ سابق فوجی اور کمانڈر مقدس دفاع کو دیکھتے ہیں۔

- دشمن اسی حکایت پیش کرنے کے معاملے میں حقیقت کے بالمقابل عمل کر تا ہے، بلندیوں کو نظر انداز کرتا ہے اور اگر کوئی پستی کا نقطہ پایا جائے تو اسے بڑا کرتا ہے۔

- دوسری جانب جب ہماری قوم جیسی دوسری قوموں کے مخاطبین کی آنکھوں میں دشمن کی جھوٹی شان و شوکت، ہیبت اور زرق و برق جلوہ کرتا ہے تو سیاسی میدان میں دشمن کا خوف اور ثقافتی میدان اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا اور خود کو پست سمجھنا اس کا نتیجہ ہے۔

- دفاع مقدس کی مخدوش، غلط اور جھوٹی روایتوں اور حکایتوں کا جواب دینے کی کوشش کی جائے۔

- مجھے صہیونیوں، امریکیوں یا یورپیوں کی لکھی ہوئی کچھ کتابیں نظر آ رہی ہیں۔ وہ فلمیں بناتے ہیں تاکہ انقلاب اور ایرانی قوم کی حرکت میں جھوٹ پر مبنی کوئی تاریک نقطہ دکھاسکیں۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ ان امور کے ماہر ہیں انہیں کچھ کرنا چاہیے۔