مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جمہوریہ چیک کے دار الحکومت پراگ میں دسیوں ہزار افراد نے گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا اور وزیر اعظم پیٹر فیالا کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔
«Czech TV» کی رپورٹ کے مطابق پولیس کے اندازوں کے مطابق ۷۰ ہزار کے قریب لوگوں نے ان مظاہروں میں شرکت کی جبکہ مظاہروں کو ہماہنگ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مظاہروں میں ایک لاکھ سے زائد افراد موجود تھے۔
احتجاج کرنے والوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بڑھتی قیمتوں کو کنٹرول کرے اور اگر یہ کام انجام نہیں دے سکتی تو طاقت سے کنارہ کشی اختیار کر لے۔ مظاہرین نے دھمکی دی کہ اگر حکومت نے ۲۵ ستمبر تک استعفا نہ دیا تو مظاہرے بدستور جاری رہیں گے اور سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
مظاہرین نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ یوکرین کی جنگ میں جہوریہ چیک کی عسکری غیرجانبداری کا بھی اعلان کرے۔ یورپی یونین کو سائڈ پر رکھ کر گیس درآمد کرنے کے لئے روس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا آغاز کرے۔
مظاہرین کے حکومت کی جانب سے یوکرینی فوج کی حمایت پر اعتراض کرتے ہوئے نعرے لگائے کہ «یہ ہماری جنگی نہیں ہے، ہم یوکرین کی خاطر یخ زدہ ہو کر بھوک سے نہیں مرنا چاہتے». یاد رہے کہ جمہوریہ چیک یورپی یونین اور نیٹو کا رکن ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے روسی افواج کی پیش قدمی کو روکنے اور یوکرین کی حمایت کے لئے ماسکو کے خلاف شدید ترین پابندیاں عائد کرنے سمیت جنگ کے گزشتہ چھ مہینوں کے دوران یوکرینی افواج کو بڑی مقدار میں اسلحہ اور جنگی ساز وسامان فراہم کیا ہے۔
اس کے علاوہ یوکرینی پناہ گزینوں کا یورپی ممالک کا رخ کرنا، یوکرین کو اسلحہ ترسیل کرنے کے بھاری اخراجات اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ یوکرین جنگ کے دیگر اثرات میں سے ہے جن کا یورپی شہریوں کا سامنا ہے۔
یورپ میں گیس کی قیمتیں تیزی سے اوپر جار رہی ہیں اور گزشتہ مہینے ﴿اگست﴾ میں روسی ایندھن فراہمی میں قلت آنے پر ہر ایک ہزار مکعب میٹر کی مالیت ۳۵۰۰ ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ گیس پروم، یورپ کو گیس فراہم کرنے والی روسی کمپنی نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ یورپی ممالک کو روسی ایندھن کی برآمدات میں کمی یورپ میں گیس کی قیمتوں کو ٦۰ فیصد تک بڑھا دے گی۔