مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا سے نقل کیا ہے کہ خاتون جج اور پولیس افسران کو دھمکی دینے پر دہشت گردی کے مقدمے میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوئی۔ اس موقع پر وکلا سمیت صحافیوں کے جوڈیشل کمپلیکس میں جانے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ سماعت کے موقع پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
جج راجا جواد عباس کے روبرو سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دینا شروع کیے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد پولیس نے عمران خان کو لکھ کر بھیجا ہے، ان کی جان کو خطرہ ہے۔
جج راجا جواد عباس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس درخواست ضمانت پر آج ہی دلائل سنیں گے۔ اس موقع پر پراسیکیوٹر نے عدالت سے کہا کہ پہلے ملزم کو عدالت پیش کریں پھر ہم بحث کریں گے۔عدالت نے مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے جن کو دھمکی دی گئی، ان کا بیان پڑھ کر سنانے کا حکم دیا۔
جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ دہشت گردی کی دفعہ جرم کے بغیر کبھی درج ہوئی؟ آپ کو بتانا ہوگا کہ کون سی کلاشنکوف لی گئی، کون سی خودکش جیکٹ پہن کر حملہ کیا گیا۔ عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ 12 بجے تک کا وقت دیا جائے، عمران خان کو پیش کردیں گے۔ اگر میرے موکل کو کچھ ہوا تو آئی جی اور ڈی آئی جی آپریشنز ذمے دار ہوں گے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ عمران خان کو کون سا خطرہ ہے وہ بتائیں۔ جب کہ انہیں ضمانت ملی ہوئی ہے ۔ عدالت نے ضمانت دی تو ان کا فرض تھا کہ عدالت پیش ہوتے۔ بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان تو آنا چاہتے ہیں لیکن پولیس نے انہیں کہا کہ انہیں خطرہ ہے ۔
وکیل نے استدعا کی کہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے میں مزید 4 دفعات 506،504،186 اور 188 شامل کی گئی ہیں۔ ان دفعات میں بھی عمران خان کی ضمانت منظور کی جائے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ ان دفعات میں ہم نوٹس جاری کریں گے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سماعت میں 12 بجے تک کے لیے وقفہ کرتے ہوئے عمران خان کو 12 بجے طلب کرلیا۔واضح رہے کہ عبوری ضمانت کی سماعت میں عمران خان عدالت سے غیر حاضر تھے۔ واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کو آج تک عبوری ضمانت دے رکھی تھی۔ عمران خان کی ضمانت کنفرم ہونے یا خارج ہونے کا فیصلہ دلائل کے بعد ہوگا۔
عمران خان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیشی سے قبل سکیورٹی کے سخت انتظامات اور پولیس کے 527 اہل کار تعینات کیے گئے ہیں۔ پولیس نے خاردار تاریں لگا کر عدالت آنے جانے والا راستہ بند کرتے ہوئے غیر متعلقہ افراد کے داخلہ پر پابندی عائد کردی۔