مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے نامور عالمِ دین اور امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے محرم الحرام عشرہ اول کی چوتھی مجلس سے خطاب کیا۔
"بعثت سے ظہور تک" کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے معبوث برسالت ہونے کے بعد انسانی معاشرہ میں تبدیلی کے لئے جن چیزوں پر توجہ دی، ان میں سے ایک جہت انسانوں کی وہ تربیت ہے جس کے پس منظر میں اس کے اعمال کار فرما ہوتے ہیں اور دوسری جہت عقیدت،عشق اور عقائد پر مشتمل ہے۔ عشق اور مودت کے بغیر اعمال کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ دونوں پہلو نبی کریمؐ ایک ساتھ لے کر چلے لہذا ابتدائے بعثت و دعوت سے لے کر اگر تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ رسولؐ نے بعثت کے ساتھ اپنے بھائی علیؑ کی بھی دعوت دی۔ یہاں تک کہ جب بسترِ وصال پر آپؐ نے کاغذ و دوات لانے کا حکم دیا تو اس سے مراد بھی علیؑ کی دعوت تھی۔ نبی کریمؐ کی دعوت کی ابتدا اور انتہا دونوں میں سب سے اہم موضوع علی ابن ابی طالب کی ولایت و امامت تھا۔ اللہ کے رسولؐ کو جہاں کہیں موقع ملا، انہوں نے لوگوں کے قلوب و اذہان میں اس موضوع کو راسخ کرنے کی شعوری کوشش کی۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے والی آیات پر غور کرنا چاہیے۔
علامہ امین شہیدی نے قرآن کو کتابِ ہدایت و انسان سازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انسان کو گمراہی سے نکال کر بلندی اور عظمت کے اعلی ترین مقام پر پہنچانے والی کتاب ہے۔ اگرچہ اس کا مخاطب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ ہیں اور آیات بھی ان ہی پر اتری ہیں لیکن انسانوں کو بھی ان کے ذریعہ سے مخاطب کیا گیا ہے۔ جب آپؐ اس دنیا رخصت ہوئے تو کتاب اللہ کو انسانوں کی ہدایت کے لئے چھوڑ گئے۔ اس کتاب کا ہر حرف و پیغام بنی نوع بشر کی ہدایت کے لئے ہے اور جو اس سے ہدایت حاصل کرنا چاہے کر لیتا ہے، جو نہ چاہے تو اگر وہ اسے پانی میں گھول کر بھی پی لے تو بھی اس کے ذہن اور روح پر اس کی تعلیمات کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ انسان کو چاہیے کہ خود کو تمام افکار، حقائق، خیالات و نظریات سے آزاد کر کے اس کتاب کی بارگاہ میں جائے اور پوچھے کہ میں کون سا عقیدہ اور نظریہ اختیار کروں؟ یاد رکھئے! نظریہ کتاب نے دینا ہے، اگر ہم اپنی پسند کا نظریہ لے کر کتاب کی طرف جائیں تو گمراہ ہو جائیں گے۔ اللہ کے رسولؐ اور ان کے جانشین یعنی اہلبیت علیہم السلام نے اس کتاب کے حوالہ سے فرمایا کہ یہ اللہ کا وہ دسترخوان ہے جس پر ہر طرح کے کھانے موجود ہیں۔ اس دسترخوان پر باہر سے کھانا لے کر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بھوکوں کو سیر کرنے اور گمراہوں کو ہدایت دینے والی کتاب ہے۔ یہ محض حفظ کرنے کی نہیں بلکہ فہم و ادراک اور نتائج اخذ کر کے ان کو اپنی عملی زندگی میں ڈھالنے والی کتاب ہے۔ لہذا اس نیت سے قرآن کو پڑھنا چاہیے، قرآن کے مقابلہ میں اپنی مرضی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔اگر ہم اس کی طرف ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے جائیں گے تو ایسے حقائق دریافت ہوں گے کہ ہم ششدر رہ جائیں گے۔