مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور کے زیراہتمام "حرمت محرم کانفرنس" کا انعقاد کیا گیا، جس میں مکتب حسینیؑ کے پیرو کار شیعہ سنی علمائے کرام، مشائخ عظام، عمائدین، دانشوروں، صحافیوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خصوصی خطاب میں خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، پیر محمد حبیب عرفانی، پیر سید شمس الرحمان مشہدی، مفتی ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، پروفیسر ظفر اللہ شفیق، پروفیسر عبدالغفور راشد، ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا، پیر غلام رسول اویسی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری، ڈاکٹر سید محمود غزنوی، علامہ اصغر عارف چشتی، علامہ عاصم مخدوم، علامہ محمد حسین گولڑوی، مفتی سید عاشق حسین، مولانا عبدالخبیر آزاد، پیر جنید امین، پیر سلطان ریاض الحسن، میر آصف اکبر، مفتی محمد اصغر صدیقی، پیر محمد صفدر گیلانی، پیر سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، پیر برہان الدین عثمانی، پیر وقاص منور مجددی، پیر سید علی رضا گیلانی، پیر سید علی رضا فضل شاہ، پیر عاصم سہروردی، ڈاکٹر علی اکبر الازہری، پروفیسر حافظ ناصر محمود، مفتی محمد شبیر انجم سمیت دیگر رہنماوں اور عمائدین نے محرم الحرام کے تقدس اور کربلا کے پیغام پر اظہار خیال کیا۔
مقررین کا کہنا تھا کہ امام حسینؑ نے عزت کی موت ذلت و خواری کی زندگی سے بہتر ہے اور شہادت عظمیٰ کا مرتبہ حاصل کرکے دنیائے انسانیت کے سامنے اسلام کے آفاقی پیغام کو ایک ایسے انداز میں پیش کیا اور اپنے اوپر ہونیوالے ظلم و ستم کو سہ کر حق و باطل کے درمیان جو حد فاضل کھینچی اور حق گوئی و شہادت کی ایسی عظیم مثال قائم کی کہ وہ رہتی دنیا کیلئے آزادی، مساوات اور جمہوریت کی علامت بننے کیساتھ اقامت دین و تحریکات اسلامی کیلئے چشمۂ ہدایت بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ نواسۂ رسول کی شہادت تاریخ انسانیت کی بہت بڑی قربانی تھی، یہ کوئی شخصی یا انفرادی واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ چمنستان نبوی کے پورے گلشن (خاندان) کی شہادت کا واقعہ تھا، جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اس طرح اسلام ابتداء سے لیکر انتہاء تک قربانیوں کا نام ہے، گویا ایک مسلمان کی زندگی ایثار و قربانی سے عبارت ہے، اسلام نے انسان کی کامیابی و کامرانی کو قربانی میں مضمر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صاحب بصیرت، نواسۂ رسولؑ کی نگاہ کو سیاسی حالات نے آنکھیں دکھائیں، وطنی مفاد آڑے آئے، وقت اور ماحول نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا، مصلحتوں نے دامن پکڑا، مشکلات نے راستہ روکا، ہلاکتوں کا طوفان نمودار ہوا، فخر و مباحات کی تیز آندھیاں اپنا زور دکھا رہی تھیں، لیکن اہل دین کا دینی ضمیر اس تبدیلی کو برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امام حسینؓ اور ان کے چھوٹے بڑے اعزاء و اقرباء کب یزید کی بیعت کرسکتے تھے؟ اس لئے کہ جنتی جوانوں کے سردار حضرت امام حسینؑ حق و باطل کے درمیان ایک فصیل کا مقام رکھتے تھے۔ مقررین نے کہا کہ امام حسینؑ کی تعلیم و تربیت کا گہوارہ آپ (ص) کی گود تھی اور آپ (ص) کی آغوش میں پل کر اپنی حیات کا آغاز کیا تھا، جن کے ناز آپ (ص) نے برداشت کئے۔ مقررین نے کہا کہ آپؑ نے حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ کے بارے میں فرمایا دنیا میں میرے یہ دو پھول ہیں اور فرمایا کہ اے اللہ میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں، تو بھی انھیں محبوب رکھ اور جو ان سے محبت کرتا ہے، انہیں بھی محبوب رکھ۔
مقررین کا کہنا تھا کہ ان کی رگوں میں ماں فاطمہ زہراء کا دودھ اور باپ علی مرتضیؑ کا خون دوڑ رہا تھا، اخلاق، پیار و محبت، عظمت و بزرگی، حکمت و شجاعت، صداقت، ایمانداری، عدالت و سخاوت، صبر و شکر اخلاق و کردار، حکمت و عفت، عدالت اور جود و سخا میں آپ (ص) کی جیتی جاگتی تصویر اور عملی نمونہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ حق و باطل، خیر و شر، اسلام و کفر کے مابین ہزاروں معرکے ہوئے اور اسلام کا اولین دور تو بے شمار شہادتوں سے لبریز ہے اور جب بھی باطل نے حق کے مقابل سر اٹھانے کی کوشش کی تو حق نے اس کے سر کو کچلا ہے اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن واقعہ کربلا تمام شہادتوں سے ممتاز اور منفرد نظر آتا ہے، کیونکہ نواسۂ رسول خانوادۂ رسول کے چشم و چراغ ہیں، یہ داستان شہادت کسی ایک پھول پر مشتمل نہیں بلکہ یہ پورے گلشن کی قربانی ہے اور شہید ہونے والوں کی آپ (ص) کیساتھ خاص نسبتیں ہیں۔