مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بلومبرگ کو ایک خصوصی انٹرویو کے دوران امریکی حکومت کی ختم نہ ہونے والی صف آرائی اور تصادم کے حوالے س خبردار کرتے ہوئے انتباہ دیا۔
کسنجر کا کہنا تھا کہ جو بایڈن کی موجودہ اور ٹرمپ کی سابقہ حکومتیں چین کے معاملے میں زیادہ تر امریکہ کی داخلی سیاست کے زیر اثر رہی ہیں اور داخلی سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر چین سے مقابلہ کرتی رہی ہیں جبکہ ان کا طرز عمل حقیقت پر مبنی تجزیات اور نتائج پر قائم نہیں تھا۔
کسنجر نے عالمی سطح پر چینی بالادستی یا کسی بھی دوسرے ملک کی بالادستی کو روکنے کے لئے امریکی کوششوں کو بہت اہم قرار دیا تاہم انہوں نے بایڈن حکومت کو خبردار کیا کہ یہ کوئی ایسا مقصد نہیں کہ جو ختم نہ ہونے والی صف آرائی اور تصادم سے حاصل کیا جاسکتا ہو۔
کسنجر کے مطابق آج کی جیوپولیٹکس کو نیکسن والی لچک کی ضرورت ہے تا کہ امریکہ اور چین کے مابین، نیز روس اور یورپی ممالک کے مابین تناو اور تصام ختم ہوسکے۔
یاد رہے کہ ہنری کسنجر ١۹۷۳ سے ١۹۷۷ تک نیکسن اور جیرالڈ فورڈ کی حکومت میں امریکہ کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ اس کہنہ مشق امریکی سیاستدان نے امریکی حکام کو اس سے پہلے بھی خبردار کیا تھا کہ امریکہ اور چین کے درمیان تناو میں اضافہ اور دوام پہلی جنگ عظیم جیسے کسی المیے پر ختم ہوگا۔
حالیہ سالوں کے دوران مختلف معاملات میں امریکہ اور چین کے مابین تناو اور تصادم میں اضافہ ہوا ہے جن میں معاشی مسائل اور انسانی حقوق سمیت ہانک کانگ کا مسئلہ، جنوبی چینی سمندر کا تنازعہ اور تائیوان کا معاملہ سر فہرست ہیں۔ دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان تازہ ترین زبانی تصادم اس وقت پیش آیا کہ جب گزشتہ روز چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی ایوان نمائندگان کے سرابراہ کے دورہ تائیوان کے فیصلے کے حوالے سے انہیں خبردار کیا۔
یاد رہے کہ تائیوان چین کے مشرق میں واقع ایک خود مختار جزیرہ ہے تاہم چین کی مرکزی حکومت کے زیر اقتدار ہے اور بیجنگ اسے اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ امریکی حکومت نے حالیہ سالوں میں بیجنگ کے اعتراضات کے باوجود تائیوان کی موجودہ حکومت کو اسلحہ کی فروخت اور اس خطے کے علیحدگی پسندوں کی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔