مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسٹریٹجک کونسل برائے خارجہ تعلقات ایران کے سربراہ کمال خرازی نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر جو بایڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم لائیر لپیڈ کی حالیہ ملاقات کے حوالے سے کہا کہ قدس اعلامیہ محض ایک تکراری اعلامیہ شمار ہوتا ہے جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سعودی عرب کے روابط بحال کرنے کے حوالے سے موقف کا خیر مقدم کرتے ہیں اور گفتگو اور دو طرفہ تعلقات کی پھر سے بحالی کے تیار ہیں۔
اسٹریٹجک کونسل برائے خارجہ تعلقات کے سربراہ نے زور دے کر کہا کہ ایران اور سعودی عرب خطے کی دو اہم طاقتیں ہیں اور ان کے مابین اختلاف کا حل خطے کی سطح پر بڑی تبدیلی کا سبب بنے گا۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران پر دباو بڑھانے کے امریکی دعووں کو واشنگٹن کی تخیلاتی مہم جوئی قرار دیا اور کہا کہ مشرق وسطی کے نیٹو کے متعلق بات کرنا سطحی افکار کا نتیجہ ہے جبکہ سعودی حکام نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ یہ مسئلہ زیرِ غور نہیں آیا۔
جو بایڈن کے مقبوضہ علاقوں کا دورہ کرنے کے متعلق کمال خرازی کا کہنا تھا کہ غاصب صہیونی ریاست اپنی نحیفی کے دور میں ہے جبکہ جو بایدڈن کی حمایت انہیں اس حالت سے نجات نہیں دے پائے گی۔
انہوں نے ایران پر حملے سے متعلق ہونے والی بعض قیاس آرائیوں کے متعلق کہا کہ پڑوسی ممالک کی جانب سے ہماری سلامتی کو نقصان پہنچانے کے اقدام پر ان ملکوں سمیت غاصب صہیونی ریاست کو بھی ہمارے براہ راست جوابی اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ ایران کی حساس تنصیبات پر حملہ ہونے کی صورت میں ہم نے صہیونی ریاست کے اندر حملے کے لئے وسیع پیمانے پرعسکری مشقیں انجام دی ہوئی ہیں اور اس کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں۔
انہوں نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ایران کو جوہری مذاکرات کے عمل میں امریکی فریق پر اعتماد نہیں جبکہ امریکہ جوہری معاہدے کو باقی رکھنے حوالے سے کوئی ضمانت پیش نہیں کر رہا اور اس مسئلے نے کسی بھی قسم کے سمجھوتے تک پہنچنے کے امکانات کو کم کردیا ہے۔
خرازی نے مزید کہا کہ اگر عالمی جوہری نگراں ادارہ آئی اے ای اے منصف اور خود مختار ہوتا تو جوہری مسئلے کے اختلافات آسانی سے حل ہوسکتے تھے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خطے کے بحرانوں کو حل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ سیاسی اورسیکورٹی اختلافات حل کرنے کے لئے مکالمے کا ایک علاقائی فورم تشکیل دیا جائے۔ البتہ قطری حکام نے خطے کی سطح پر گفتگو کے آغاز کے لئے اہم تجاویز پیش کی ہیں اور ہم نے اس سلسلے میں اپنی مکمل آمادگی کا اظہار بھی کیا ہے۔