مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے جدہ سکیورٹی اینڈ ڈویلپمنٹ سمٹ کے اختتام پر کہا کہ اس سمٹ کا محور امریکہ کے ساتھ شراکت داری تھا جبکہ بقیہ ممالک پر اپنی اقدار کے زبردستی تھونپنے کے برعکس نتائج برآمد ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سمٹ کے دوران یا اس سے پہلے اسرائیل کے ساتھ عسکری تعاون یا ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کے حوالے سے کسی بھی قسم کوئی تجویز زیرِ غور نہیں آئی اور عرب نیٹو نام کے کسی منصوبے کا کوئی وجود نہیں ہے۔
فیصل بن فرحان نے زور دیا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات مثبت تھے تاہم ابھی اپنے مقصد تک نہیں پہنچے ہیں۔ ہم ایران کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کی جانب مائل ہیں اور اب بھی سعودی عرب کے ہاتھ ایران کی طرف بڑھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سمٹ میں عرب نیٹو نامی کسی چیز پر بات نہیں ہوئی اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ نام کہاں سے لائے ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ نے تیل کی اضافی پیداوار کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جدہ سمٹ میں تیل کی پیداوار کا مسئلہ خصوصی طور پر زیرِ غور آیا۔ اوپک کا ادارہ قائم ہے اور مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق مطلوبہ شکل میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور ریاض بھی وہی کرے گا جو تیل کی مارکیٹ میں توازن قائم کرنے کے لئے لازمی ہوگا۔
فیصل بن فرحان کا مزید کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ معاملات کی بحالی کا واحد راہ حل سفارتی راہ حل ہیں۔ ہم شدت کے ساتھ کثیر الجہتی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں اور عالمی اداروں کے ذریعے اختلافات ختم کرنے کے حامی ہیں۔
انہوں نے واضح کہا کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک اور اسرائیل کے مابین دفاعی تعاون کے متعلق کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور سب سے اہم مسئلہ جو جدہ سمٹ میں زیرِ غور آیا، ہمارے ملکوں کی اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے عالمی ایجنڈا ترتیب دینے میں باہمی مشارکت ہے۔
سعودی وزیر خارجہ سعودی عرب کی تیل کی پیداواری صلاحیت کے متعلق کہا کہ ١۳ میلین بیرل تیل کی روزانہ پیداوار، زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہے کہ جسے ریاض حاصل کر لے گا۔
فیصل بن فرحان نے فضائی حدود کے متعلق ایک مرتبہ پھر سعودی موقف دھرایا کہ دنیا کے تمام ہوائی جہاز جب تک فضائی قوانین کا خیال رکھیں سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزر سکتے ہیں۔