حضرت علي (ع) نے اپنا چہار سالہ دور حكومت سخت پريشانيوں ميں گزارا ليكن اپنے فريضہ ہدايت پر مکمل طور پر عمل پیرا رہے اور آپ نے آخری لمحہ میں بھی مسلمانوں کو قرآن مجید پر عمل کرنے اور یتیموں کا خیال رکھنے کی سفارش کی ۔

مہرخبررساں ايجنسي كي اردو سرويس کے مطابق حضرت علي (ع) نے اپنا چہار سالہ دور حكومت سخت پريشانيوں ميں گزارا ليكن اپنے فريضہ ہدايت پر مکمل طور پر عمل پیرا رہے اور آپ نے آخری لمحہ میں بھی مسلمانوں کو قرآن مجید پر عمل کرنے اور یتیموں کا خیال رکھنے کی سفارش کی ۔ مسلمانوں کے پہلے امام حضرت علی (ع) نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے بیٹوں، عزیزوں اور مسلمانوں کو پرہیزگاری،یتیموں، پڑوسیوں سے حسن سلوک اور قرآن مجید پر عمل کرنے کی سفارش کی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے وصیت نامہ میں فرمایا: " میں تمہیں پرہیز گاری، مسلمانوں کے درمیان اصلاح، پڑوسیوں اور یتیموں کے حقوق کی رعایت،قرآن مجید پر عمل کرنے اور نماز کی قدر کرنے کی سفارش کرتا ہوں۔"

حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول اکر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ " علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں"  .کبھی یہ فرمایا کہ " میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں"  . کبھی یہ فرمایا: " آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والے علی ہیں"  . کبھی یہ فرمایا: " علی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی ". کبھی یہ فرمایا: " علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے" ۔
کبھی یہ فرمایا: " وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں " ۔  یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجدکے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی اور اخوت کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر اسلام نے اپنا بھائی قرار دیا۔ اور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم، ولی  اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست، ولی  اور حاکم ہیں۔

كيا دنيا اس قيامت خيز رات كو فراموش كر سكتي ہے؟ جب كائنات كا امير اپني بيٹي كے گھر مہمان تھا اور بيٹي نے افطار ميں دودھ اور نمك لا كر حاضر كيا توفرمايا ميري لال ام كلثوم تجھے معلوم ہے كہ تيرے باپ نے ايك وقت ميں دو غذائيں نہيں كھائيں ، بيٹي دودھ كہ پيالہ اٹھا دو كسے معلوم تھا كہ مولا نے دودھ كا پيالہ كيوں اٹھواديا ؟ راز تو اس وقت كھلا جب ابن ملجم كي تلوار سر اقدس پر لگي اور مولا زخمي ہو كر بيت الشرف ميں تشريف لائے اور جراح نے زخم سر ديكھ كر دودھ تجويز كيا عزادارو 19 وي شب افطار سے فارغ ہونے كے بعد مولا(ع) كا يہ عالم تھا كہ بار بار حجرہ عبادت ميں تشريف لے جاتے تھے اور نكل آتے تھے " بيشك يہ وہي رات ہے " بيٹي نے گھبرا كے پوچھا بابا جان يہ كون سي رات ہے ؟ فرمايا ميري لال يہ ميري اور تيري جدائي كي رات ہے يہ وہ رات ہے جس كي پيغمبر اسلام (ص)خبر دے گئے ہيں جس كے بعد مجھے بارگاہ الہي ميں حاضر ہونا ہے۔ بيٹي ديكھ تيرا باپ كس طرح لرز رہا ہے۔ آج مجھے دنيا كے كسي بہادر سے مقابلہ نہيں كرنا ہے آج مجھے رب العالمين كي بارگاہ ميں جانا ہے رات گزرتي رہي سحر كا ہنگام آيا تجديد وضو فرما كر گھر سے باہر نكلنے كا قصد كيا مرغابيوں نے بڑھ كر دامن تھاما پلٹ كر امام حسن (عليہ السلام ) كو ديكھا، فرزند! ان جانوروں كا خيال ركھنا ان ميں كوئي بھوكا پياسا نہ رہ جائے اگر ان كے آب و دانہ كا انتظام نہ ہوسكے تو انھيں آزاد كردينا ميں كسي كو بھوكا پياسا نہيں ديكھ سكتا ہوں ۔ يہ كوفہ ہے كوفہ كاش كوئي اہل كوفہ ميں اس وصيت كو سنتا اور ياد ركھتا كہ علي (عليہ السلام ) جانوروں كي بھوك اور پياس برداشت نہيں كر سكتے اوركل يہيں اولاد علي ہوگي كہ جن كے خيموں سے العطش العطش كي آوازيں بلند ہونگي

مولا بيت الشرف سے باہر چلے امام حسن (عليہ السلام ) اور امام حسين (عليہ السلام ) ساتھ چلے مڑ كر ديكھا كہا ميرے لال واپس جاؤ آج تمھارا گھر ميں رہنا زيادہ ضروري ہے شہزادے واپس ہوگئے ليكن كسے معلوم تھا كہ مولا نے كيوں واپس كرديا يہ تو باپ جانے يا فرزند رازاس وقت كھلا جب علي (عليہ السلام ) كا سجدہ شروع ہوا اور سر اقدس پر ابن ملجم كي تلوار لگي فضاميں قد قتل اميرالمومنين كي آواز گونجي اور شہزادي زينب و ام كلثوم تڑپ كر بھائي كے پاس آئيں بھيا يہ ميں كيا سن رہي ہوں؟ كيا بابا مارے گئے؟ مولا مسجد ميں آئے آخري فرض ہدايت انجام ديا گلدستہ پر اذان كہي صحن مسجد سے قاتل كو بيدار كيا اور دنيا كو يہ پيغام سناكر مصلے پرآئے كہ علي (عليہ السلام ) وقت نماز قاتل كا سونا بھي برداشت نہيں كرسكتا تو چاہنے والوں كا بے نمازي ہونا كيونكر برداشت كرے گا

نماز شروع كي سر سجدہ خالق ميں ركھا ابن ملجم كي تلوار چلي ستون مسجد ہلے چراغ مسجد بجھے فضا ميں كہرام بر پا ہوا آسمانوں ميں تلاطم پيدا ہوا ، روح الامين تڑپ كر چلائے۔ نبي كا بھائي ماراگيا علي (عليہ السلام )شہيد ہوگئے ستون ہدايت گرگيا ريسمان ہدايت ٹوٹ گئي بيت الشرف تك آواز پہنچي سيدانيوں ميں كہرام بر پا ہوا نالہ و شيون كي آوازيں بلند ہوئيں شہزادے مسجد تک آئے امام حسن (عليہ السلام ) نے مسلمانوں كو نماز پڑھائي اور دنيا كو سبق ديا كہ خبردار قتل علي (عليہ السلام )كو مسجد ميں نہ جانے كا بہانہ قرار نہ دينا مجھ سے زيادہ علي (عليہ السلام ) كا چاہنے والا كون ہوگا ميں وارث علي (عليہ السلام )اور فرزند علي (عليہ السلام ) ہوں ميں نے ٹھيك وقت ضربت مسجد ميں آكر نماز پڑھائي ہے اور ہميشہ مسجد ميں نماز پڑھي ہے خود مولائے كائنات نے 19 ويں ماہ رمضان كي صبح سب كچھ جانتے ہوئے مسجد ميں آكر واضح كرديا كہ علي (عليہ السلام ) جان دے سكتا ہے مسجد كو ترک نہيں كر سكتا ور نہ گھر ہي ميں نماز ادا كرليتا اور بظاہر خطرہ سے محفوظ رہتا ۔

اس كے بعد شہزادے باپ كو لے كر چلے بيت الشرف كے قريب پہنچے اميرالمومنين نے آواز دي بيٹا حسن! چاہنے والوں كو واپس كر دو اب گھر قريب آگيا ہے ميں نہيں چاہتا كہ نامحرموں كے كانوں ميں ميري بيٹيوں كي آواز جائے مولا يہ 40 ھ كا كوفہ ہے جو چاہيے وصيت كرليجئے كل 61 ھ اسي كوفہ ميں آپكي بيٹياں سر ننگے بلوہ عام پھرائي جائيں گي ۔