مہر خبررساں ایجنسی کی اردوس سروس کے مطابق حضرت محمد مصطفے ( ص ) درجہ نبوت پر ابتدا ہی سے فائزتھے۔ آپ نے فرمایا :" کنت نبیا و آدم بین الماء والتین" میں اس وقت بھی نبی تھا، جب ادم کو خلق کیا جارہا تھا۔ آپ نے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا: " اول ما خلق اللہ نوری " اللہ تعالی نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق فرمایا۔ پھر فرمایا:" انا و علی من نور واحد " میں اور علی دونوں ایک ہی نور سے ہیں۔ آنحضور (ص) کی ان احادیث سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ تمام انبیاء کو اللہ تعالی نے آنحضور (ص) اور ان کے اہلبیت (ع) کے طفیل میں عہدہ نبوت عطا کیا ،اللہ تعالی نے پنجتن پاک کو وجہ خلقت کائنات قراردیا۔ فرمایا: لولاک لما خلقت الافلاک " اے پیغمبر ، افلاک اور کائنات کو میں نے تیری محبت میں پیدا کیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے اللہ تعالی کی توحید کے فروغ میں مصائب اور مشکلات کے باوجود عظیم الشان کردار ادا کیا اور جاہل و نادان معاشرے میں علم و دانش کے چراغ روش کئے عرب کے جاہل معاشرے کو عملی طور پر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) نے ۳۸ سال کی عمرمیں" کوہ حرا" کو اپنی عبادت اور بندگی کے لئے انتخاب کیا۔ مورخین کابیان ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ حرا میں تنہائی کے عالم میں اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول تھےکہ آپ کے کانوں میں آواز آئی " یامحمد" آپ نے ادھر ادھر دیکھا کوئی دکھائی نہ دیا۔ پھرآوازآئی پھرآپ نے ادھرادھردیکھا ناگاہ آپ کی نظرایک نورانی مخلوق پرپڑی، وہ جناب جبرائیل تھے انہوں نے کہا کہ " اقرا " پڑھو، حضورنے ارشاد فرمایا: " مااقراء" کیا پڑھوں انہوں نے عرض کی کہ " اقراء باسم ربک الذی خلق الخ" پھرآپ نے سب کچھ پڑھ دیا۔
آنحضور (ص) کوعلم قرآن پہلے سے حاصل تھا ، جبرئیل کے اس تحریک اقراء کامقصدیہ تھا کہ نزول قرآن کی ابتداء ہوجائے اس کے بعد جبرئیل نے وضواورنمازکی طرف اشارہ کیا اور نماز کی تعداد رکعات کی طرف بھی حضور(ص) کو متوجہ کیا چنانچہ حضور اکرم (ص) نے وضوکیا، اورنمازپڑھی آپ نے سب سے پہلے جونمازپڑھی وہ ظہرکی نماز تھی پھرحضرت (ص) وہاں سے اپنے گھرتشریف لائے اورخدیجة الکبری اورعلی ابن ابی طالب (ع) سے واقعہ بیان فرمایا۔ ان دونوں نے اظہار ایمان کیا اورنمازعصر ان دونوں نے آنحضور (ص) کی امامت میں اداکی یہ اسلام کی پہلی نمازجماعت تھی جس میں رسول کریم امام اورحضرت خدیجہ اور حضرت علی (ع) ماموم تھے۔ آپ فطرت کے آغاز سے ہی درجہ نبوت پر فائز تھے، ۲۷ رجب کومبعوث برسالت ہوئے ۔ حضرت محمد مصطفے ( ص ) جب چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر اپنا پیغام پہنچانے اور لوگوں کو صحیح راستے پر ہدایت کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ص) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئی، اسی کو بعثت کہتے ہیں .حضرت محمد (ص) پر وحی الٰھی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعد تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالاخرخدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور رسول الله(ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا ۔
اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے گا اور جو اس راہ میں میری مدد کرےگا وہ میرا بھائی، میرا وصی، میرا خلیفہ اور میراجانشین ہوگا۔
اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا :” اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبہ اسی سوال کو دہرایا اور تینوں مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا :
اے میرے خاندان والو! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی ، میرا خلیفہ اور میراجانشین ہے ۔ پیغمبر اسلام کی بعثت کے موقع پر ماحول آپ کے خلاف تھا ، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہیں آتا تھا ۔ بس ایک علی علیہ السّلام تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ا ن کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کا اظہارکیا . دوسری ذات جناب خدیجۃالکبریٰ کی تھی، جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام کا شرف حاصل کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : سید ذاکر حسین جعفری