پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف اور امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے باہمی ملاقات میں امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملا اخترمنصور کی ہلاکت کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ  پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف اور امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے باہمی ملاقات میں امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملا اخترمنصور کی ہلاکت کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی۔

ملاقات میں 22 مئی کو بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

جنرل راحیل شریف نے امریکی ڈرون حملے پر شدید تشویش اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حملہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور دوطرفہ تعلقات کے لیے نقصان دہ ہے، جبکہ ڈرون حملے علاقائی استحکام اور امن کے لیے بھی معاون ثابت نہیں ہوں گے۔ امریکہ نے ہفتے اور اتوار درمیانی شب بلوچستان میں پہلا ڈرون حملہ کرتے ہوئے افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا تھا۔

پاکستان نے 2010 میں ڈرون حملوں کے حوالے سے بلوچستان کو ’ریڈ لائن‘ قرار دیتے ہوئے نو گو ایریا بتایا تھا، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے بلوچستان میں اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے امریکی ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف قرار دیا، جبکہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اس پر شدید احتجاج بھی ریکارڈ کرایا گیا۔

گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی پریس کانفرنس کے دوران ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی اقدام، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی مکمل خلاف ورزی ہے جبکہ امریکہ کا اس حوالے سے پیش کیا گیا جواز بھی غیر قانونی ہے۔

ذرائع کے مطابق افغان طالبان کو پاکستان کی مکمل پشتپناہی حاصل ہے اور پاکستان بھی امریکہ کی طرح دہشت گردوں کو اچھے اور برے دہشت گردوں میں تقسیم کرتا ہے اوردہشت گردی کے خلاف ایسی مبہم پالیسی  دہشت گردی کے فروغ میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانتسان کی حکومت پاکستان کے مصالحتی کردار کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتی ہے اور افغانستان میں قیام مان کے سلسلے میں پاکستانی کردار پر افغان حکومت کو عدم اطمینان ہے جس کا افغان حکومت متعدد بار اظہار بھی کرچکی ہے۔