اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جمعے کو ویانا میں شام کے بارے میں منعقدہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اس اجلاس میں صریح اور سنجیدہ مذاکرات ہوئے البتہ بعض شرکاء نے شام کے صدر بشار اسد کےبارے میں فیصلہ کرنے کی بھی کوشش کی۔

مہر خبررساں ایجنسی نے ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جمعے کو ویانا میں شام کے بارے میں منعقدہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اس اجلاس میں صریح اور سنجیدہ مذاکرات ہوئے البتہ بعض شرکاء نے شام کے صدر بشار اسد کےبارے میں فیصلہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ ظریف نے کہا کہ ویانا نشست میں اختلافات تو تھے اور اختلافات تو بہرحال رہیں گے لیکن اجلاس کے آغاز سے ہی بعض لوگوں نے بشار اسد کے اقتدار سے ہٹنے کا اپنا نظریہ پیش کرنا شروع کردیا تھا اور ایران نے بھی یہ اعلان کردیا تھا کہ یہ فیصلہ کرنا شام کے عوام کی ذمہ داری ہے۔ محمد جواد ظریف نے ویانا اجلاس کے اختتامی بیان کے بارے میں کہا کہ اس بیان میں انتہا پسندانہ نظریات نہیں ہیں بلکہ اعتدال پسند نظریات دیکھنے کو ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں بعض نہایت اہم نکات بھی ہیں اور ان میں ایک یہ ہےکہ شام کی سیاسی راہ حل، شام کے عوام اور سیاسی گروہوں کی جانب سے پیش کی جائے گی- محمد جواد ظریف نے دہشت گردی کے مقابلے کے بارے میں کہا کہ تمام ملکوں کو جان لینا چاہیے کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی سنگین خطرہ ہے، انہوں نے کہا کہ داعش کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ سلامتی کے لئے ایک ٹھوس خطرہ ہے جس کا تمام ملکوں کو مقابلہ کرنا چاہیے۔ واضح رہے شام کے بحران کا جائزہ لینے کے لئے ویانا میں سترہ ملکوں کا اجلاس ہوا تھا- اس اجلاس میں سترہ ملکوں کے وزرا خارجہ اور نمائندوں نیز اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔