مہر خبررساں ایجنسی نے بی بی سی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سعودی عرب میں گھروں میں تیار کردہ شراب توجہ کا مرکز بن گئی ہے سعودی عرب کےکچھ علاقوں میں شراب بنانے کے کلب بھی موجود ہیں اور اِن میں مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ 49 سالہ برطانوی شہری ٹونی سعودی عرب میں کاروباری مشیر کے طور پر کام کرتے ہیں اور پانچ سال سے وہاں مقیم ہیں۔ اِس وقت وہ سعودی عرب میں نہیں ہیں لیکن وہ سعودی عرب واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ اُن عمارتوں میں رہتے ہیں جہاں مغربی شہریوں کی اکثریت ہے تو وہاں لوگوں کوگھر میں تیار کردہ شراب اور بیئر تک رسائی ہوتی ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ سپرٹ تک بھی، جس کو ’صدیق‘ کہتے ہیں، اور یہ بنیادی طور پر صاف اور خالص شراب ہے۔
اگر آپ اُن عمارتوں میں ہیں تو آپ کو دیگر ممالک سے آئے ہوئے چند ایسے افراد مل جائیں گے جو اپنی شراب خود بناتے ہیں، میں نے بھی بنائی ہے۔
جو لوگ اُن عمارتوں میں رہتے ہیں جہاں مغربی شہریوں کی اکثریت ہے تو وہاں لوگوں کوگھر میں تیار کردہ شراب اور بیئر تک رسائی ہوتی ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ سپرٹ تک بھی، جس کو ’صدیق‘ کہتے ہیں، اور یہ بنیادی طور پر صاف اور خالص شراب ہے۔اگر آپ اُن عمارتوں میں ہیں تو آپ کو دیگر ممالک سے آئے ہوئے چند ایسے افراد مل جائیں گے جو اپنی شراب خود بناتے ہیں۔ٹونی کا کہنا تھا کہ سپر مارکیٹ میں آپ کسی دوسرے ملک سے آئے ہوئے شخص کو دیکھیں تو وہ اپنی ٹرالی " پھلوں کے رس کے ڈبوں اور شکر کے بڑے تھیلے " سے بھر رہا ہو گا کیونکہ یہ شراب بنانے کے اجزا ہیں۔ اِن عمارتوں میں شراب کے نشے میں دُھت ہونا عام بات ہے۔ یہ واقعی ایسا ہی جیسے آپ کہیں چھٹیاں گزار رہے ہیں۔یہاں جوڑے ہوتے ہیں جو چیزوں سمگل کرنے کا انتظام کرتے ہیں اور کچھ بڑے لوگوں کے بار بھی ہیں جن کے بارے میں سعودی حکام آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔یہاں سعودیوں میں بھی شراب پینے کا کافی رواج ہے۔ بہت سے لوگ جن کے ساتھ میں ملتا جلتا رہا ہوں اُن کے پاس جیک ڈینیئلز اور دیگر نشہ آور شرابوں کا ذخیرہ موجود ہوتا تھا اور اِس کے ساتھ ساتھ وہ مقامی طور بنائی گئی شراب بھی خریدتے تھے۔میں ہمیشہ سعودی دوستوں کوشراب لانے کے لیے کہتا ہوں، اگر اُنھیں پکڑ بھی لیا جائے تو کسی مشکل کے بغیر وہ پولیس والوں کو ایک بوتل دے کر دوبارہ اپنے راستے پر چل پڑتے ہیں۔