مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ حسن شکوہی نسب: ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے میں ابھی ایک ماہ سے زیادہ کا وقت باقی ہے، لیکن انہوں نے برکس پر ابھی سے حملے شروع کردئے ہیں۔ انہوں نے نے حال ہی میں اپنے سوشل میڈیا پیغام میں برکس ممبران کو دھمکی دی کہ اگر ڈالر کو ہٹا دیا گیا اور لین دین کے لئے متبادل کرنسی بنائی گئی تو انہیں 100% ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا!
تاہم ٹرمپ کی اس دھمکی پر برکس ممالک نے فوری رد عمل ظاہر کیا۔ کریملن کے ترجمان "دمتری پیسکوف" نے کہا جی امریکہ کی جانب سے ممالک کو ڈالر کے استعمال پر مجبور کرنے کے لیے طاقت اور پابندیوں کا سہارا لینا مہنگا پڑے گا۔ ڈالر کئی ممالک میں اپنی ویلیو کھو چکا ہے اور اس کی مارکیٹ تیزی سے گر رہی ہے۔
برکس پاور کے فیصلہ کن عوامل
برکس اتحاد کا دائرہ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے علاوہ 6 نئے اراکین (سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، مصر، ارجنٹائن، اور ایتھوپیا) تک پھیل چکا ہے جو دنیا کی تقریباً 45 فیصد آبادی کی نمائندگی کر رہے ہیں اور تقریباً دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا ایک تہائی ہے۔ یہ بلاک 36% زمینی رقبہ پر محیط ہے، جو اس کے وسیع جغرافیائی اور آبادیاتی اثر کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کہ "گروپ 7" کا حصہ آبادی اور زمین کے اعتبار سے بالترتیب تقریباً 9.7 اور 16.1 فیصد ہے۔
اقتصادی طور پر برکس 2023 میں تقریباً 30.8 ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ تیزی سے مغربی ممالک کے لیے ایک کاؤنٹر بلاک کے طور پر ابھرا ہے۔
اس کے علاوہ، اس بلاک میں دنیا کے تیل کے ذخائر کا تقریباً 44.4% ہے اور دنیا کی گندم کی پیداوار میں نمایاں حصہ (48.7%) ہے۔ یہ اثرات برکس کی معاشی طاقت اور قدرتی وسائل کو ظاہر کرتے ہیں جو موجودہ مغربی ورلڈ آرڈر کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
16واں برکس سربراہی اجلاس روس کے شہر کازان میں منعقد ہوا، اس دوران امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لئے کئی حکمت عملیاں تجویز کی گئیں۔ جن میں مشترکہ ادائیگی کے نظام "برکس برج" کی ترقی تھی، جو خاص طور پر کاروباری لین دین میں ڈالر کے کردار کو کم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یہ نظام بلاک چین ٹیکنالوجی اور مرکزی بینک ڈیجیٹل کرنسیوں (CBDC) کا استعمال کرنے جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ، بین الاقوامی موبائل ادائیگی کے نظام اور ایک مشترکہ ای کامرس پلیٹ فارم کی تخلیق کے ذریعے اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کے منصوبے پیش کیے گئے۔ ان اقدامات کا مقصد برکس کے رکن ممالک کی اقتصادی آزادی کو بڑھانا اور عالمی مالیاتی نظام پر ڈالر کے غلبہ کو کم کرنا ہے۔
برکس کے امریکہ کے خلاف مزید طاقت حاصل کرنے کے خطرات
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، برکس کو دنیا میں ایک اہم اقتصادی اور سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس بلاک نے نہ صرف رکن ممالک کی اقتصادی ترقی کی سمت بلکہ امریکی بالادستی کے لیے ایک ممکنہ چیلنج کے طور پر کام کیا ہے۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم اس اتحاد کو اپنے حملوں کا ہدف کیوں بناتی ہے۔ اس سلسلے میں کئی نکات پر غور کرنا چاہیے:
1۔ برکس امریکہ کی زیر قیادت بین الاقوامی نظام کے لیے ایک کھلا چیلنج
ٹرمپ اور ان کی ٹیم برکس کو عالمی اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں امریکی بالادستی کے لیے براہ راست خطرہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ بلاک امریکی ڈالر پر رکن ممالک کے انحصار کو کم کرنے، مقامی کرنسیوں کو مضبوط بنانے اور کثیر قطبی نظام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
ٹرمپ نے " سب پہلے امریکا" کا نعرہ لگا کر امریکی غلبہ کے حامل اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کسی بھی کوشش پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
2. ٹرمپ کی توجہ بنیادی دشمن کے طور پر چین پر ہے۔
برکس کے اہم ارکان میں سے ایک چین ہے، جسے ٹرمپ امریکہ کے سب سے بڑے اقتصادی اور جیوپولیٹکل حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ٹرمپ کی اپنی پہلی انتظامیہ کے دوران چین کے خلاف سخت تجارتی پالیسیاں، جیسے ٹیرف وار اور ٹیکنالوجی کی پابندیاں، چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے بارے میں ان کی تشویش کو ظاہر کرتی ہیں۔ چونکہ برکس میں چین کا مرکزی کردار ہے، اس لیے یہ تنظیم بھی بالواسطہ طور پر ٹرمپ کی دوسری صدارت میں ان کے حملوں کا نشانہ بنی ہے۔
3۔ روس اور جیو پولیٹکل رقابت
روس، ایک اور برکس رکن کے طور پر، ٹرمپ کی پالیسیوں کا مرکز ہے۔ اگرچہ ٹرمپ کو پہلی صدارت کے دوران بعض اوقات ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ذاتی تعلقات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن ان کی ٹیم نے روس کو یورپ اور مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لیے خطرہ کے طور پر دیکھا۔ چونکہ روس برکس میں ایک فعال کردار ادا کرتا ہے اور اس نے تقریباً تین سال تک یوکرین کی جنگ میں مغرب کو چیلنج کیا ہے، اس لئے برکس امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے روس کے ساتھ جیو پولیٹیکل مقابلے کا حصہ بھی ہے۔
4. برکس اور ڈالر کے اثر و رسوخ میں کمی
برکس "نیو ڈویلپمنٹ بینک" اور "برکس برج" جیسے متبادل مالیاتی نظام بنانے کی کوشش کرتا ہے، جس کا مقصد امریکی غلبہ والے مالیاتی نظام پر رکن ممالک کا انحصار کم کرنا ہے۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم ڈالر کو کمزور کرنے کے کسی بھی اقدام کی سختی سے مخالفت کرتی ہے کیونکہ ڈالر امریکہ کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے ساؤ پالو کی یونیورسٹی کے پروفیسر گلبرٹو مارنگونی کا خیال ہے کہ برکس کے رکن ممالک کا امریکی ڈالر کو اپنے کاروباری لین دین میں استعمال کرنے سے انکار بالآخر امریکہ کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ اس ایسوسی ایشن کے خلاف جارحانہ رویہ اور دھمکی آمیز ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
5۔ ٹرمپ کے قوم پرستانہ خیالات
ٹرمپ کی پہلی صدارت میں ان کے مشیر، خاص طور پر "مائیک پومپیو" اور "جان بولٹن" جیسے لوگوں نے قوم پرست اور عالمگیریت مخالف نظریے کی بھرپور حمایت کی۔ ان کے نقطہ نظر سے، برکس عالمگیریت اور بین الاقوامی تعاون کا نمائندہ تھا جس نے امریکہ کے مفادات کو ترجیح نہیں دی۔ ٹرمپ کی دوسری صدارت میں بھی اس طرح کا نقطہ نظر غالباً غالب رہے گا۔
نتیجہ
ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے برکس پر بار بار حملے دنیا میں امریکہ کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں کمی کے بارے میں گہری تشویش کی وجہ سے ہیں۔ برکس، ایک آزاد اور کثیر قطبی اتحاد کے طور پر، امریکہ کی قیادت میں عالمی نظام کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ ٹرمپ کی امریکی خارجہ پالیسی ہمیشہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتی ہے، خاص طور پر چین اور روس پر توجہ مرکوز کرنا، جو اس بلاک کے کلیدی رکن ہیں۔
مبصرین کے نقطہ نظر سے، ٹرمپ کی جانب سے BRICS کے ارکان پر 100% ٹیرف کی دھمکی امریکی ڈالر کے مزید کمزور ہونے اور گروپ کی کرنسی کی جگہ لینے کے خوف کی وجہ سے ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے ٹرمپ بخوبی سمجھ چکے ہیں اور وہ بلاشبہ 20 جنوری کو وائٹ ہاؤس میں دوبارہ داخل ہونے کے بعد BRICS کے ساتھ زیادہ سنگین تصادم کا شکار ہوں گے، اس امید پر کہ شاید متضاد اتحادوں کو دھمکیاں دے کر منہدم ہوتی امریکی بالادستی کو بحال کیا جائے گا۔