صہیونی حکومت نے گذشتہ دو دنوں کے اندر 300 سے زائد حملے کرکے شام کے اہم اور اسٹریٹیجک دفاعی مقامات اور تنصیبات کو تباہ کردیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عربی ویب سائٹ العربی الجدید نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ صیہونی قابض افواج نے گذشتہ دو دنوں کے دوران شام کے تقریباً تمام فوجی اور حساس مراکز پر حملے کیے۔ ان حملوں کا مقصد شام کی فوجی اور اسٹریٹجک صلاحیت کو ختم کرنا تھا جن میں فضائی اڈے، فوجی تحقیقی مراکز، بحری تنصیبات اور اسلحے کے ذخائر شامل ہیں۔

تل ابیب نے اتوار اور پیر کے دن شام کے اسٹریٹجک مراکز پر کم از کم 300 حملے کیے۔ ان میں سے ایک اہم حملہ دمشق کے شمال مغرب میں 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جمرایا کے فوجی اور سائنسی تحقیقی مرکز پر کیا گیا۔ یہ مرکز 1980 کی دہائی میں قائم کیا گیا تھا اور یہاں جدید ہتھیار اور میزائل تیار کیے جاتے تھے لیکن ان کا استعمال صیہونی اہداف کے خلاف نہیں کیا جا سکا۔

ایک اور اہم ہدف دمشق کے شمال مشرق میں واقع برزہ کا تحقیقی مرکز تھا جو 1970 کی دہائی میں شام اور فرانس کی حکومت کے باہمی تعاون سے قائم کیا گیا تھا۔ یہ مرکز کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

تل ابیب نے حلب کے جنوب مشرق میں 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع السفیرہ کے فوجی ورکشاپس پر بھی میزائل داغے۔ یہ مرکز شامی فوج کے خراب ہتھیاروں کو درست کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

بحیرہ روم میں شامی بحریہ کے مراکز بھی ان حملوں کا نشانہ بنے جو شام کی فوجی صلاحیت کو کمزور کرنے کی ایک منظم کوشش کا حصہ تھے۔

دمشق کے مغرب میں واقع المزہ ایئر بیس جو شامی حکومت کا ایک اہم مرکز تھا، بھی ان حملوں کا ہدف بنا۔ اس دوران شامی فوج کے درجنوں ہیلی کاپٹر اور جنگی طیارے تباہ کیے گئے۔ اس ایئرپورٹ پر موجود دفاعی نظام، جن میں S-200 اور اوسا شامل تھے، مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے۔

صیہونی افواج نے حمص کے مشرقی علاقے میں تمام ایئرپورٹس پر حملے کیے، جن میں الشعیرات ایئرپورٹ بھی شامل تھا۔ یہ ایئرپورٹ حمص شہر کے جنوب مشرق میں 31 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہاں جدید ریڈار سسٹمز، اسلحہ ساز فیکٹریاں، اور شامی ڈرونز کی تیاری کے مراکز موجود تھے۔

الشعیرات ایئرپورٹ میں 40 کنکریٹ کے بینکرز اور 3 کلومیٹر لمبے دو رن وے تھے۔ یہ مرکز دفاعی میزائل سسٹمز سے لیس تھا جن میں سام-6 شامل تھا اور شامی حکومت کے بریگیڈ 22 کا ہیڈکوارٹر تھا۔ اس ایئرپورٹ پر 7 اپریل 2017 کو امریکہ نے بھی حملہ کیا تھا۔

عسکری تجزیہ کار فائز الاسمر نے العربی الجدید سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تل ابیب نے تقریباً کسی بھی فوجی مرکز کو اپنے حملوں سے نہیں بخشا۔ ان حملوں نے شام اور اس کی فوج کو 20 سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان حملوں میں دمشق کے مضافات میں اسلحہ کے ذخائر، کناکر میں بریگیڈ 121، اور درعا کے مضافات میں بریگیڈ 12 کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق تل ابیب نے شامی جنگی طیاروں سوخو اور مگ 29، طرطب پہاڑوں میں اسلحہ کے ذخائر، اور شام کے شمال مشرق میں واقع قامشلی کے فوجی ایئر بیس کو بھی نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں شامی میزائل بریگیڈز اور ریڈار نیٹ ورک کو بھی تباہ کر دیا گیا تاکہ تل ابیب کی شام کو مکمل غیر مسلح کرنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔