مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛صہیونی حکومت کے خلاف وعدہ صادق 2 آپریشن کے بعد برطانیہ نے اس کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کے اعلی عسکری رہنماوں اور اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
پابندی کی زد میں آنے والوں میں آرمی چیف میجر جنرل موسوی، نائب سربراہ محمد حسین دادرس، فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل حمید واحدی، سپاہ پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس کے سربراہ محمد کاظمی، ایڈمرل حبیب اللہ سیاری اور سپاہ پاسداران انقلاب کے ترجمان علی محمد نائینی شامل ہیں۔
برطانیہ نے ایران کے فضائی تحقیقاتی ادارے پر بھی پابندی عائد کی ہے۔
برطانیہ نے یوکرائن کے خلاف روس کی مدد کو بہانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان پابندیوں کا وعدہ صادق2 آپریشن سے کوئی تعلق نہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ نے ایرانی مسلح افواج کی مجموعی طاقت کو دیکھتے ہوئے یہ پابندیاں عائد کی ہیں۔
ایک استعماری ملک کی حیثیت سے برطانیہ کی تاریخ دوسرے ممالک اور اقوام پر ظلم و ستم اور تحقیر سے پر ہے۔ منشیات کی جنگ سے لے کر افریقہ کی تقسیم تک برطانیہ کی شرمناک تاریخ میں نقش ہے۔ ان اقدامات کا مقصد اپنی فوجی اور اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر دوسرے ممالک کے قدرتی ذخائر پر قبضہ جمانا ہے۔
برطانیہ ایک طرف متمدن ہونے کا دعوی کرتا ہے تو دوسری طرف دنیا کے مختلف خطوں میں مقامی تہذیبوں کو ختم اور ثقافتوں کو تباہ کرتا ہے اور اپنے مفادات کی خاطر خود کو نجات دھندہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس دوران برطانیہ نے دوسری اقوام کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرتے ہوئے ان ممالک کے اقتصادی اور اجتماعی ڈھانچے پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔
غارتگر اقتصادی مشکلات کے گرداب میں
آج دنیا ترقی کرچکی ہے اور عالمی سطح پر شعور اور بیداری کی وجہ سے لوگ برطانیہ کو اپنے حقوق آسانی سے غصب کرنے نہیں دیتے ہیں۔ 2024 میں برطانیہ کا اقتصاد بحران کی زد میں آیا ہے۔ مختلف بحرانوں نے اقتصادی طور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں جس کی وجہ سے عوام کی روز مرہ زندگی کافی متاثر ہوگئی ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق برطانیہ کی اقتصادی ترقی کی شرح اس سال 7۔0 رہی جبکہ آئندہ سال 5۔1 رہنے کا امکان ہے۔ یہ عالمی غارتگر کے گھر میں اقتصادی مشکلات اور بحران کی علامت ہے گویا برطانوی اقتصادی آہستہ ڈوب رہا ہے۔
برطانیہ میں بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے سے لوگوں کی قوت خرید پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ لندن جیسے بڑے شہروں میں رہائشی مکانات کی قیمتوں اور کرایے میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ عوام کی بڑی تعداد زندگی کی بنیادی ضروریات کے لئے مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
اسی طرح غذائی اجناس کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں جس سے لوگوں کے گھریلو اقتصادی بجٹ متاثر ہورہے ہیں۔
برطانوی معاشرے کو درپیش اجتماعی چیلنجز حکومت کے لئے زیادہ تشویشناک ہیں۔ نوجوان افرادی قوت میں کمی اور ضعیف العمر افراد کی تعداد میں اضافہ برطانوی اقتصاد پر دور رس منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ اگر ملکی مصنوعات عوام کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہوجائیں تو اقتصادی مشکلات مزید گھمبیر ہوسکتی ہیں۔ رواں سال کے دوران پیش آنے والی مشکلات سے برطانیہ کی اقتصادی اور اجتماعی حیثیت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
اندرونی مشکلات میں اور اقتصادی بحران میں مبتلا برطانیہ کی طرف سے دوسرے ملک کے اداروں اور شخصیات پر پابندی سے اس ملک پر منفی اثرات کے بجائے اس کی دفاعی طاقت میں اضافہ بھی ممکن ہے۔
مثال پر اشکال وارد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ برطانیہ جیسے تاریخ میں منفور ترین ملک کی جانب سے سپاہ اسلام پر پابندی سے ایک حکایت یاد آرہی ہے: ایک مکھی گائے کے سینگ پر بیٹھ گئی۔ کافی دیر بعد اس نے سوچا دوسری جگہ بیٹھ جاؤں اور گائے کی رائے پوچھی اور اس کو تھکانے پر ہمدردی کا اظہار کیا۔ گائے نے کہا: مجھے تیرے آنے کا پتہ ہی نہیں چلا؛ تو جانے کے بارے میں پوچھ رہی ہو!!!
بعض افراد اور ممالک اس قدر کمزور اور ضعیف ہیں کہ ان کا ہونے یا نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دوسروں کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ملتا ہے البتہ وہ نقصان دے سکتے ہیں۔
قدیم زمانے میں کسی گاوں میں ایک شخص رہتا تھا جو خوش فہمی میں مبتلا رہتا تھا۔ یہ شخص گاوں کے حاکم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کی کوشش میں رہتا تھا۔ اس کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں تو ایک مرتبہ غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اس نشست میں چلاگیا جس میں حاکم اور اس کے درباری بیٹھتے تھے۔
کسی کونے میں بیٹھ کر حاکم سے مخاطب ہوا۔ گاؤں کا حاکم غضبناک ہوا اور کہا: یہاں کیا جسارت کررہے ہو، باہر چلے جاؤ۔ یہ بات سن کر وہ شخص خوشی سے جھومتا ہوا باہر چلا گیا۔ اس کو لگا کہ اس نے غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہے جو لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے۔
وہ لوگوں سے کہنے لگا کہ حاکم نے مجھ سے بات کی اور اپنی جایگاہ پر بٹھا دیا۔ لوگوں کو حقیقت کا علم نہیں تھا اس لئے تعجب ہوا کہ حاکم نے کس طرح معمولی انسان کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ لوگوں کے استفسار پر اس نے واقعہ بیان کیا۔
اس دن کے بعد یہ واقعہ ضرب المثال بن گیا کہ اگر کوئی دوسرے کے ساتھ اپنی اوقات سے بڑھ کر سلوک کرے تو گاؤں کے اس شخص کی حکایت پیش کی جاتی تھی۔
کلام آخر
آج دنیا میں حالات بدل گئے ہیں۔ ماضی کا برطانیہ کبیر جو آج کی ضعیف العمر لومڑی بن چکا ہے، نے اسلامی جمہوری ایران کے بہادر کمانڈروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
اس کی حکایت بھی گاؤں کے اس شخص کی مانند ہے جو دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اپنے تئیں پوری کوشش کرتا ہے۔
برطانیہ کے لئے شرمندگی کی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں سپاہ پاسداران کا ترجمان بھی شامل ہے جس کا کام صرف اطلاع رسانی ہے۔ آزادی اظہار رائے کے دعویدار ملک نے دوسروں تک اطلاع رسانی کرنے والے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
اطلاع رسانی کے مسئول یہ ترجمان برطانیہ کے لئے کیا مشکل ایجاد کرسکتا ہے؛ برطانوی بینکوں میں اس شخص کے کتنے اثاثے ہوں گے؛ یہ ترجمان اولڈ ٹریفورڈ اسٹیڈیم میں جاکر تماشائیوں کے لئے کیا خطرات ایجاد کرسکتا ہے؟
الغرض جس فوج کو جنوبی امریکہ سے لے کر جنوب مشرقی و مغربی ایشیا تک سب آزادی بخش فوج کے طور پر جانتے ہیں؛ اس کے کمانڈروں پر پابندی عائد کرنے سے نہ صرف برطانیہ ماضی کی شان و شوکت حاصل کرنے میں ناکام ہوگا بلکہ پہلے سے زیادہ عالمی برادری کی نظروں میں حقیر اور پست ہوجائے گا۔