مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت مدینہ میں ذی قعدہ کی پہلی تاریخ 173 ہجری کو ہوئی۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی بہن اور امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے زمانے کی سب سے زیادہ عالمہ اور بہت پرہیزگار خاتون تھیں اور ائمہ معصومین علیہم السلام ان کا بہت احترام کرتے تھے۔
روایات کے مطابق حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لیے اپنے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ مدینہ سے خراسان کا سفر کیا۔
راستے میں کئی شہروں میں قیام کے دوران حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا اہل بیت کے چاہنے والوں نے پرتپاک استقبال کیا، جنہیں ان کی حکمت اور علم سے مستفید ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔
عباسی خلیفہ مامون نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ انہیں قم کے قریب واقع قصبہ ساوہ میں روکا جائے چنانچہ مامون الرشید کے سپاہیوں نے ساوہ میں ان کے کاروان کے بہت سے افراد کو قتل کر دیا جہاں وہ بیمار پڑ گئیں۔ اس لیے اس نے قم میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔
قم کے عوام نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اور ان کے ساتھیوں کا شہر پہنچنے پر پرتپاک استقبال کیا۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا 17 دن قم میں رہیں۔
اس دوران وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مناجات میں مصروف رہیں۔ تاہم، وہ بیمار تھیں اور بالآخر دس ربیع الثانی کو انتقال کر گئیں۔
آپ کو قم کے مرکزی علاقے میں دفن کیا گیا جو ایران میں شیعہ مسلمان مشہد کے بعد ایران کا دوسرا مقدس ترین شہر تصور کرتے ہیں۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی تدفین کے بعد قم شیعہ مسلمانوں کا مرکز بن گیا۔ آپ کے مقدس مزار پر ہر سال لاکھوں عاشقان اہل بیت (ع) حاضر ہوتے ہیں۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا شہادت کے موقع پر ایران کے دیگر شہروں کی طرح قم میں بھی عزاداری اور جلوس کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں واقع امام بارگاہوں اور عزا خانوں سے جلوس اور تعزیے برآمد ہوتے ہیں جو مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا پر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔
جلوس کے راستے میں ماتمی دستوں اور انجمنوں کی جانب سے موکب لگائے جاتے ہیں جہاں عزاداروں کو نیاز دیا جاتا ہے۔
جلوس اور تعزیہ داری کا سلسلہ شہادت کی رات کو شروع ہوتا ہے اور اگلے دن شام تک جاری رہتا ہے۔