مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اقوام متحدہ میں ناوابستہ تحریک کے وزرائے خارجہ کی فلسطین کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمہوریہ یوگنڈا کا اس اجلاس کے بروقت انعقاد اور اس کی صدارت کے دوران کی جانے والی کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ناوابستہ تحریک کی فلسطینی کاز کی حمایت کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران، اسرائیل کی نسل پرست حکومت نے غزہ کی پٹی اور دیگر فلسطینی علاقوں میں اپنے طویل مدتی غیر قانونی قبضے، نسل کشی کی پالیسیوں، وحشیانہ حملوں اور فلسطینی شہریوں خاص طور پر خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کے علاوہ متعدد جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ کی اقوام متحدہ کے اجلاس میں کی گئی تقریر کا مکمل متن حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم چیئرمین اور معزز ساتھیو
سب سے پہلے جمہوریہ یوگنڈا کا اس بروقت اجلاس بلانے اور فلسطینی کاز کی حمایت کے لیے ناوابستہ تحریک کی صدارت کے دوران کی جانے والی کوششوں کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔
گزشتہ سال کے دوران، اسرائیلی نسل پرست حکومت نے غزہ کی پٹی اور دیگر فلسطینی علاقوں میں اپنے غیر قانونی قبضے، نسل کشی کی پالیسیوں، وحشیانہ حملوں اور فلسطینی شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کے علاوہ متعدد جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ غاصب رجیم نے بھیانک جرائم کے ذریعے ایک ایسی قوم کے ساتھ دوہری ناانصافی کی ہے جو اسرائیل کے ناجائز قبضے میں سات دہائیوں سے اپنے ناقابل تنسیخ حقوق بشمول حق خودارادیت اور انسانی وقار سے محروم ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران مظلوم فلسطینی قوم کے خلاف نسل کشی کی مہم میں شہادت پانے والوں کی تعداد 42 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ دریں اثنا، ان غیر انسانی مظالم کا شکار ہونے والے تقریباً 70 فیصد معصوم بچے اور خواتین ہیں، جنہوں نے ظلم و بربریت کا عالمی ریکارڈ قائم کیا، جس کی مثال انسانی تاریخ کی خونی ترین حکومتوں میں بھی نہیں ملتی۔ اس دہشت گرد حکومت نے فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے سربراہ ہنیہ کو تہران میں جارحیت اور منظم دہشت گردی کی ایک کارروائی میں شہید کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ فلسطین کی حالیہ صورت حال اور غزہ اور مغربی کنارے کی مزاحمت ایک بار پھر ظاہر کرتی ہے کہ غاصبانہ قبضے کے خلاف قائم ہونے والی آزادی کی تحریک کے طور پر فلسطینی مزاحمت اور حماس کی تباہی ایک خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔
تنازعات کو بڑھانے اور پورے خطے میں جنگ کو پھیلانے کا اسرائیلی حکومت کا ارادہ واضح طور پر خطے میں امن اور استحکام کے لیے عزم کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ نسل پرست اور قابض حکومت اب لبنان کے خلاف جارحیت کی ایک غیر منصفانہ جنگ شروع کر رہی ہے اور اس ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو پامال کرنے اور اس کے بے گناہ لوگوں کو مارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عام شہریوں کو جان بوجھ کر اور اندھا دھند نشانہ بنانے کے علاوہ شہریوں کے زیر استعمال الیکٹرونک ڈیوائسز کو دھماکے سے اڑا کر خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں بے گناہ لوگوں کو شہید کرچکی ہے۔ لہذا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششوں کے ایک اہم حصے کے طور پر، بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کے اس نئے اور غیر معمولی طریقے کی سختی سے مذمت کرے، بصورت دیگر یہ ایک ایسی خوفناک نظیر قائم کر سکتا ہے جسے دوسرے دہشت گرد گروہوں اور اداروں کے ذریعے آسانی سے اپنایا جا سکتا ہے۔
جناب چیئرمین معزز ساتھیو
اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینی کاز کے مستقل اور مخلص حامی اور علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے ذمہ دار کردار کے طور پر ناوابستگی تحریک کی فلسطین کمیٹی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس قوم کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت میں مضبوط موقف اپنائے۔
اس کمیٹی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس اجلاس کے نتائج کے طور پر خاطر خواہ سفارشات اور اقدامات لائے گی، جس میں: غزہ میں فوری، جامع، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں اور خطے کی دیگر اقوام کے خلاف تمام مظالم اور جارحانہ اقدامات کے خاتمے کا مطالبہ؛ غزہ کی 17 سالہ غیر انسانی ناکہ بندی کو فوری اور مکمل اٹھانے پر زور دینا؛ تمام فلسطینی قیدیوں اور اسیران کی رہائی کی درخواست؛ اسرائیلی حکومت کو غزہ سے فوری، مکمل اور غیر مشروط انخلاء کا پابند بنانا اور تمام بے گھر فلسطینیوں کی محفوظ اور باوقار واپسی کو یقینی بنانا نیز قابض رجیم کو غزہ پر اپنے حملے کو مکمل طور پر روکنے اور بین الاقوامی اور قانونی ذمہ داریوں کو نافذ کرنے کے لیے اس رجیم کے خلاف فوری طور پر ہتھیاروں اور تجارتی پابندیاں عائد کرنا شامل ہے
نیز قابض رجیم کو غزہ پر حملے کو مکمل طور پر روکنے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون پر عمل درآمد کی خلاف ورزی پر ہتھیاروں اور تجارتی پابندیوں کا نفاذ؛ نسل کشی کنونشن کے تحت جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کئے گئے مقدمے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے حکم دیے گئے عارضی اقدامات پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث تمام اسرائیلی اہلکاروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور سزا کی حمایت کرنا، ان سفارشات کا ضروری حصہ ہے۔
جناب چیئرمین، میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ خطے میں اس وقت تک امن و سلامتی قائم نہیں ہو سکتی جب تک غاصب رجیم کے قبضے کو ختم کرکے فلسطینیوں کے ناقابل تنسیخ حقوق بشمول ان کے حق خود ارادیت کو تسلیم اور نافذ نہیں کیا جاتا اور مغربی ایشیا اور دنیا کے اس 70 سالہ ڈراؤنے خواب کو ختم کرنے کا واحد راستہ تمام فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو بحال کرنا ہے۔ ہم تجویز کرتے ہیں کہ فلسطین کے وہ تمام لوگ جو اپنی مادر وطن میں رہتے ہیں اور وہ بھی جو ترک وطن پر مجبور ہوئے ہیں، ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کا تعین کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے ہم ایک پائیدار امن حاصل کر سکتے ہیں، جس میں مسلمان، عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ایک سرزمین پر سکون اور امن کے ساتھ نسل پرستی سے دور رہ سکتے ہیں۔