صیہونیوں کے خلاف ایک اردنی شہری کے خصوصی آپریشن کے ساتھ ہی یمنی مسلح افواج کے صیہونی دشمنوں کے خلاف سرپرائز حملوں نے عرب دنیا کے اخبارات کی توجہ حاصل کر لی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: صیہونی حکومت کے خلاف ایک اردنی شہری کی کارروائی میں تین صیہونیوں کی ہلاکت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ عرب اقوام کا فلسطین کے مستقبل اور غزہ کی پٹی کے خلاف تل ابیب کے جرائم کے حوالے سے عوامی موقف ان پر مسلط شاہی حکومتوں کے بزدلانہ موقف سے یکسر مختلف ہے۔ 

روزنامہ القدس العربی  نے اردنی شہری کے آپریشن کے بارے میں لکھا کہ کل ایک اردنی شہری کی کاروائی میں تین صیہونی ہلاک ہوئے، جو کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد سے اپنی نوعیت کا پہلا صیہونیت مخالف سپرائز آپریشن ہے۔ 

اس آپریشن کے بعد اردنی باشندوں نے حملہ کرنے والے شہری کو شہید قرار دے کر اظہار تشکر کے لیے مٹھائیاں تقسیم کیں۔


یہ آپریشن اپنے اندر کئی پیغام رکھتا ہے، کیونکہ ماہر الجازی کا تعلق شیخ ہارون الجازی کے گاؤں سے تھا، جہاں  کے بہت سے لوگوں نے صیہونی حکومت کے خلاف 1948ء کی جنگ میں رضاکارانہ طور پر شرکت کی تھی۔

مذکورہ آپریشن غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف عوامی ردعمل ہے۔ 

روزنامہ رائ الیوم نے غزہ کی پٹی کے بارے میں لکھا ہے کہ صیہونی حکومت غزہ کی پٹی کے خلاف اپنے حملے تیز کرنے کے ساتھ وہ فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی پالیسی کو بھی نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تل ابیب مغربی کنارے کو بھی غزہ کی پٹی کی طرح نسل کشی کے حملوں کی زد میں رکھنے اور اس علاقے میں مزاحمتی فورسز کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

 اگر مغربی کنارے کے خلاف صیہونی حملے دوبارہ شروع ہوئے تو یہ علاقہ قابض رجیم کے لیے مزید محفوظ نہیں رہے گا اور مزاحمتی فورسز انہیں نشانہ بنانے کے لیے اپنی تمام تر طاقت استعمال کریں گی۔

 مغربی کنارہ بھی غزہ کی پٹی کی طرح صہیونیوں کے لیے میدان جنگ بن جائے گا جو قابض فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو نگل سکتا ہے۔
 
 لبنانی روزنامہ الاخبار نے اردن میں آپریشن کے بارے میں لکھا ہے کہ اردن اور مغربی کنارے کے درمیان کراسنگ آپریشن نے ثابت کیا کہ اردن کے لوگ صیہونی حکومت کے جرائم سے کس قدر نفرت کرتے ہیں۔ اس کارروائی نے ایک بار پھر صیہونی حکومت کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس سسٹم کی کمزوری کو ظاہر کر دیا کیونکہ یہ حملہ اس کے انتہائی حساس پوائنٹ پر کیا گیا تھا، مزید یہ کہ مستقبل میں بھی ایسی ہی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں اور تل ابیب ایسی کارروائیوں کو نہیں روک سکتا۔ یہ مسئلہ صیہونی حکومت کے لیے اس کے ہمسایہ ممالک اور غزہ کی پٹی میں نسل کشی کے جرائم پر مشتعل عوام کی جانب سے خطرے کی گھنٹی ہے۔

 شام کے اخبار الثورہ نے نیٹو کے بارے میں لکھا: "واقعات و حادثات سے پتہ چلتا ہے کہ نیٹو معاہدہ تاریخ کا بدترین معاہدہ تھا۔

یوکرین کے روس کے خلاف حملوں نے ثابت کیا کہ نیٹو کتنا فریب کار ہے اور اس نے صحیح وقت پر اپنی دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے یوکرین کو اربوں کی مالی مدد اور ہتھیار فراہم کیے گئے ہیں۔ جب بھی نیٹو کو لگتا ہے کہ جنگ اپنے اختتام کے قریب ہے اور یوکرین ہار رہا ہے تو  وہ اس کے لیے اپنی حمایت کی سطح بڑھاتا ہے، جبکہ دوسری طرف وہ نہایت بے شرمی سے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ چین اور ایران روس کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں! 

شام کے روزنامہ الوطن نے صیہونی حکومت کے بارے میں لکھا کہ غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگوں کے پچھلے سالوں میں اس حکومت کے کسی بھی عہدیدار نے فلاڈیلفیا کراسنگ کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے اس پر کنٹرول کی ضرورت پر زور دیا، لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ نیتن یاہو کا اس معاملے میں انتہائی اصرار در اصل حماس کے ساتھ معاہدے کو ناکام بنانے کا نیا بہانہ ہے۔

صیہونی حکومت کے اندر، فلاڈیلفیا کراسنگ میں فوجیوں کی موجودگی کے حوالے سے عسکری کمانڈروں اور سیاست دانوں کے درمیان شدید اختلاف موجود ہے اور بنیادی طور پر وہ اس کوریڈور کی پرواہ نہیں کرتے۔

اخبار المرقب العراقی نے الکرامی آپریشن کے بارے میں لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ خطے میں جنگ تیز رفتاری سے جاری ہے اور مزاحمتی محور نے دشمن کے لیے بہت سے سرپرائز تیار کیے ہیں۔

طوفان الاقصیٰ کے دوران مزاحمتی کارروائیوں کے بعد ایسا لگتا ہے کہ دیگر کارروائیاں ان علاقوں میں ہو رہی ہیں جن کے بارے میں دشمن نے سوچا بھی نہیں تھا، جیسا کہ مصر اور اردن۔ یہی وہ چیز ہے جس سے دشمن سب سے زیادہ خوف کھاتا ہے۔ یعنی جنگی محاذوں کے دائرے کو فلسطین سے باہر تک پھیلانا۔

یمنی روزنامہ المسیرہ نے لکھا ہے کہ یمن کی انصار اللہ تحریک کے سربراہ کی حالیہ تقریر کے مطابق، ملک کی مسلح افواج کے اختیار میں موجود جدید اور غیر معمولی ٹیکنالوجیز کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ یمنی افواج کے تکنیکی فوجی اقدامات کے تحت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال ہوں گی جو تاریخ میں دشمن کے لیے ایک بڑا اور غیر معمولی سرپرائز ہوگا۔

مثال کے طور پر ہم ایک ہی وقت میں ڈرون، میزائل، سائبر وار اور مقبوضہ علاقوں پر زمینی حملوں کا ذکر کر سکتے ہیں جو دشمن کو خوف ناک سرپرائز دیں گے۔ یا یہ کہ ہائی ٹیک ڈرونز، ٹروجن ہارس کی طرح، دشمن کے ریڈار میں آئے بغیر پیچیدہ قسم کا تباہ کن انٹیلی جنس آپریشن انجام دیں گے۔