مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ماہ صفر المظفر کا آخری دن حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔ دوسرے ائمہ کی طرح آپ نے بھی مشکلات اور سختیوں میں زندگی گزاری۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفاء مختلف سازشوں اور مظالم کے باوجود سلسلہ امامت کو ختم نہ کرسکے۔ حضرت امام موسی ابن جعفر علیہ السلام کی شہادت کے وقت بنی عباس کی حکومت نہایت مضبوط تھی۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کے ایک صحابی کے بقول ہارون رشید کی تلوار سے ہمیشہ خون بہتا تھا۔ ائمہ کرام نے تشیع کے درخت کی آبیاری کی اور اس کو تباہ کن طوفان سے بچایا۔ بنی عباس کے طاقتور ترین خلفاء کے دور میں بھی ائمہ نے مختلف طریقوں سے شیعوں کی جانوں کی حفاظت کی۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر ہدایت فاؤنڈیشن کے نائب سربراہ حجت الاسلام رضا غلامی نے مہر نیوز سے گفتگو کی اور امام عالی مقام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ اخلاق دین کا ظرف اور پیمانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اخلاق جتنا اچھا ہوگا اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے گا، دینی معارف کو زیادہ درک کرے گا۔ حضرت امام رضا علیہ السلام کی ایک ممتاز خصوصیت آپ کا اچھا اخلاق تھا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی مہربانی اور رحم و کرم ان کی زندگی کے بعد بھی قابل مشاہدہ ہے۔ آپ کے زائرین اپنے وجود کے اندر امام عالی مقام کا لطف و کرم مشاہدہ کرتے ہیں اور آپ اپنے زائرین پر خصوصی کرم کرتے ہیں۔
حجت الاسلام غلامی نے کہا کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام جب قید میں تھے، گھریلو امور کی ذمہ داری حضرت امام رضا علیہ السلام کے کندھوں پر تھی۔ آپ گھریلو امور میں کسی کو دوسرے کی توہین کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ آپ خود بھی اہل خانہ کے ساتھ نہایت نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ آپ کسی کو بھی اس کے نام سے نہیں پکارتے تھے بلکہ احتراما کنیت استعمال کرتے تھے۔
حجت الاسلام غلامی نے مزید کہا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے غلاموں اور خادموں کے ساتھ بھی نہایت حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ اپنے جد امجد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نہایت خوش اخلاقی آپ کی پہچان تھی۔ آپ اپنے دسترخوان پر تمام گھر والوں کے ساتھ غلاموں اور کنیزوں کو بھی بٹھاتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام دوسروں پر کبھی سختی نہیں کرتے تھے۔ کسی کو بلانے کی صورت میں اگر کھانا کھانے میں مصروف ہو تو اس کو کھانا کھانے کی مہلت دیتے تھے اور مکمل فارغ ہونے کے بعد کسی کام کا حکم دیتے تھے۔ اپنے غلاموں اور کنیزوں سمیت زیردست افراد کو بلاتے وقت نہایت احترام سے آواز دیتے تھے۔
آپ کے گھریلو اخلاق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کو کبھی بھی گھر والوں کے ساتھ تندروی یا سختی سے سلوک کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ آپ نے کبھی کسی کی توہین نہیں کی۔ گفتگو کے دوران دوسرے کی شخصیت کا خیال رکھنا اور احترام کرنا آپ کی عادت تھی۔
حجت الاسلام غلامی نے کہا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی پرہیزگاری اور تقوی کے دشمن بھی معترف تھے۔ آپ دوسروں کو تقوی اور پرہیزگاری کی دعوت دیتے تھے۔ آپ عبادت کے عاشق تھے۔ دن کو روزے رکھنا اور رات کو نمازیں پڑھنا آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ روایت کے مطابق آپ دن اور رات میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام معاشرے میں بسنے والے بے کسوں اور غریبوں کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ سخی انسان دوسروں کے دسترخوان سے کھاتا ہے تاکہ دوسرے بھی اس کے دسترخوان سے کھائیں اور بخیل دوسروں کے دسترخوان سے کھاتا ہے تاکہ دوسرے اس کے دسترخوان سے نہ کھائیں۔ امام عالی مقام نے ایک مرتبہ عرفہ کے دن اپنی پوری دولت راہ خدا میں صدقہ دے دیا۔
انہوں نے امام عالی مقام کے اخلاق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام علیہ السلام تکلم کے دوران دوسرے کی بات نہیں کاٹتے تھے بلکہ اس کو اپنی بات پوری کرنے کا موقع دیتے تھے۔ آپ اٹھتے اور بیٹھتے ہوئے آداب مجلس کی رعایت کرتے تھے۔ دوسروں کے سامنے کبھی دیوار سے ٹیک نہیں لگاتے تھے۔ ان اخلاقی فضائل کی وجہ سے آپ ہمیشہ دوسروں سے ممتاز تھے اور لوگ آپ کو امام روؤف یعنی مہربان امام کے طور پر پہنچانتے تھے۔