مہر نیوز رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان میں ایران کے سابق سفیر ابوالفضل زہرہ وند نے نئی حکومت میں وزارت خارجہ کی ترجیحات کے بارے میں کہا: افغانستان سے ایران کے آبی حقوق کے معاملے کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیے۔
انہوں نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون کو فعال کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا اور سرحدی منڈیوں کو فعال کرنا پابندیوں کو ناکام بنانے کا ایک اہم حل ہے جو حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شنگھائی اور برکس میں ایران کی رکنیت کافی نہیں ہے اور ہمیں آپریشنل مرحلے میں داخل ہونا چاہیے اور شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔
ایران کے قومی سلامتی کمیشن کے رکن نے کہا کہ دنیا میں 200 ممالک ہیں اور دنیا صرف یورپی یونین اور پابندیاں عائد کرنے والے ممالک کا نام نہیں ہے کہ ہم چند یورپی ممالک کے ساتھ رابطے پر انحصار کریں۔ بلکہ ہمیں تمام ممالک کی صلاحیتوں سے فائد اٹھانے کے لئے ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہیے۔
زھرہ وند نے افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ رابطے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے تعلقات میں افریقی اور جنوبی امریکی ممالک کے ساتھ رابطے کو ترجیح دی جانی چاہیے کیونکہ یہ پابندیوں کو ناکام بنانے میں بہت موثر ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ چیمبر آف کامرس، بیرون ملک ایران کے سفارت خانوں کو چاہیے کہ وہ بیرونی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے زیادہ فعال ہوں، خاص طور پر ان ممالک کے ساتھ جن کے ساتھ ہمارا رابطہ کم ہے لیکن اچھی صلاحیتیں موجود ہیں۔