مہر نیوز کے مطابق، گزشتہ ہفتے امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات سے آگاہ دس ذرائع نے خبر دی ہے کہ غزہ میں اسرائیلی رجیم کی مستقبل میں فوجی موجودگی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اختلافات جنگ بندی معاہدے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
حماس کے دو عہدیداروں اور تین مغربی سفارت کاروں نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ اختلافات اسرائیل کے نئے مطالبات سے پیدا ہوئے جب کہ حماس نے مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی تجویز قبول کی تھی۔
تمام ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس نے نتساریم کوریڈور پر صیہونی فوجیوں کو تعینات رکھنے کے نئے مطالبے کو مسترد کیا ہے۔
واشنگٹن نے گزشتہ ہفتے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد تازہ ترین تجویز پیش کی، تاہم حماس نے ثالثوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مزید مذاکرات کرنے کے بجائے مئی کے آخر میں امریکی صدر جو بائیڈن کے وضع کردہ فریم ورک کو نافذ کریں۔
حماس تحریک نے کہا کہ موجودہ امریکی تجویز "نیتن یاہو کی شرائط کے مطابق ہے جو کہ فلسطینی فریق کے لئے ہرگز قبول نہیں۔
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن سامی ابو زہری نے کہا کہ اس طرز کے معاہدے کے امکانات کے بارے میں امریکہ کی امید ایک "خام خیالی" کے سوا کچھ نہیں۔