مہر خبررساں ایجنسی نے اسپوتنک نیوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ صیہونی روزنامہ "یدیوت احرانوت" نے باخبر ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ قطر کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ "محمد بن عبدالرحمن الثان نے ایرانی حکام کو غزہ جنگ بندی مذاکرات کی پیش رفت" سے آگاہ کیا تاکہ تہران کو اسرائیل پر حملہ نہ کرنے پر راضی کیا جا سکے۔
ادھر برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے بھی منگل کو ایرانی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی سے ہنیہ کے قتل پر ایران کے ردعمل میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
روئٹرز نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایران غزہ میں مستقل جنگ بندی کے قیام اور فریقین کے حتمی معاہدے تک پہنچنے کے نتیجے میں شہید ہنیہ کے قتل پر ردعمل میں تاخیر کر سکتا ہے۔
صیہونی حکومت کے خلاف ایران کی انتقامی کارروائی کے وقت کے بارے میں امریکی حکام اور میڈیا کی بعض قیاس آرائیوں کے باوجود دو امریکی حکام نے "رائٹرز" کو بتایا کہ امریکی حکومت کی قومی سلامتی ٹیم نے صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمالہ ہیرس کو آگاہ کر دیا ہے۔ کہ "یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ایران کب اسرائیل پر حملہ کرے گا اور اس حملے کا دائرہ اور شدت کیا ہو گی۔
اس سے قبل امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں مقبوضہ فلسطین میں اسماعیل ھنیہ کے قتل کے ردعمل میں ایران کے حملے کی تاریخ کا ذکر کیا تھا۔
الجزیرہ نے پیر کی شام کو رپورٹ کیا کہ ٹرمپ نے ایک آن لائن انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے سنا ہے کہ "ایران آج رات اسرائیل پر حملہ کرے گا۔
ریپبلکن امیدوار نے کہا کہ مجھے یہ بیانات میڈیا سے موصول ہوئے ہیں اور اگرچہ میں صدارتی انتخابات کا باضابطہ امیدوار ہوں لیکن میری رپورٹ معلوماتی ذرائع سے نہیں ہے۔
سعودی عرب کی الحدث نیوز سائٹ نے اطلاع دی ہے کہ امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے ترجمان نے پیر کی شب ایران کی جانب سے اسرائیل پر ممکنہ حملے کے امکان کے بارے میں میڈیا کی قیاس آرائیوں کے جواب میں کہا کہ ہمیں ایران کی طرف سے ایسی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ آنے والے گھنٹوں میں حملہ کرسکتا ہے۔
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کے روز مقامی وقت کے مطابق بیروت اور تہران پر صیہونی حملے اور فواد شکر کی شہادت کے بعد لبنانی مزاحمت اور ایران کی تل ابیب کے خلاف جوابی کارروائی کے بارے میں کہا: واشنگٹن مغربی ایشیائی خطے کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور کشیدگی کے دائرہ کار میں اضافہ کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہے۔