مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے دعا کمیٹی لاہور کے زیر اہتمام ماہانہ فکری نشست سے خطاب کیا جس کا موضوع ”نوجوانوں کی سیاسی ذمہ داریاں (دینی تناظر)“ تھا۔ انہوں نے کہا کہ شعور و آگہی کے حوالہ سے ہمیں کل اور آج کی نوجوان نسل میں بہت فرق نظر آتا ہے۔ ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ آج کا نوجوان سسٹم سے ٹکرانے کے لیے تیار ہے جس کی بنیادی وجہ شعور و آگہی میں اضافہ کے ساتھ وہ آئیڈیل ازم ہے جو ہر انسان میں موجود ہوتا ہے۔ آج ہماری قوم کے جوانوں کی معقول تعداد میدانِ عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
نوجوانوں کے اندر موجود توانائی اور جستجو کو درست سمت دینے کا نتیجہ تحریک و بیداری ہے جس کی زندہ مثال امام خمینی رحمة اللہ علیہ کی انقلابی تحریک ہے۔ یہ امام خمینیؒ کا ہنر تھا کہ جنہوں نے اپنے انقلاب میں نوجوانوں کا انتخاب کر کے ان کی فکر، توانائی اور صلاحیتوں سے بھرپور کام لیا ایک قدیم شہنشاہی و استبدادی نظام کو اس کے انجام تک پہنچایا۔ یہ جملہ تو آپ سب نے سنا ہوگا کہ جب امام خمینیؒ عراق میں مقیم تھے، پوچھا گیا کہ آپ جس فورس کے ذریعہ انقلاب لانا چاہتے ہیں وہ تو کہیں نظر نہیں آتی تو جواب میں فرمایا کہ وہ فورس ماؤں کی گودوں میں پل رہی ہے۔ پھر ہم نے ملاحظہ کیا کہ پندرہ سال بعد اٹھارہ بیس سالہ گلی کوچوں میں کھیلنے والے جوان انقلاب کے وقت معاشرہ کی مضبوط و باشعور فورس کی شکل میں نظر آئے۔ یہ شعور امام خمینیؒ کا پیدا کردہ تھا۔ کسی بھی سرزمین کے جوان اگر باشعور ہوں تو اس سے زیادہ طاقتور طبقہ اور کوئی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو درپیش چیلنجز میں سب سے اہم فکری چیلنج ہے کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام، میڈیا، معاشرہ، موبائل ایپلیکیشنز جو اس کی ذہن سازی و تربیت میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، ان کا کنٹرول استعمار کے ہاتھ میں ہے، ان میں سے کوئی بھی چیز اہل توحید اور نظریاتی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یعنی موبائل فون، انٹرنیٹ پیکج اور وقت آپ کا خرچ ہو رہا ہے لیکن ان کے ذریعہ جو خوراک آپ کو مل رہی ہے، وہ آپ کے لئے غیر موزوں ہے۔ دراصل نوجوانوں سے استعمار کے مفادات کی حفاظت کا کام لیا جا رہا ہے اور اگر ان میں سے کوئی اپنے مفادات و نظریات کا انتخاب کرنا چاہے تو استعمار اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ اپنے اہداف سے ٹکرانے والی ہر شے استعمار کے نشانہ پر ہوتی ہے، اسے ہمیشہ اُس چیز سے خوف محسوس ہوتا ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہو۔ اسی لئے ہماری نوجوان نسل کی فکر کو کنٹرول کر کے اسے صرف مسجد و مدرسہ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ لیکن اسلام محض عبادات کا دین نہیں، یہ فکر کی بیداری اور حق کے عَلَم کو سربلند کرنے کی جدوجہد کا دین ہے۔ اگر جدوجہد، عبادات کے ساتھ زندگی کا حصہ بن جائے تو اسلام کہلائے گا اور اگر نہیں، تو پھر نماز، روزہ، حج رہبانیت کی شکل تو ہوں گے لیکن اجتماعی زندگی میں آبرو مندانہ زندگی جینے کا ذریعہ کبھی بھی نہیں بن سکتے۔ اسی لئے اصل اسلام کے ساتھ استعماری طاقتوں نے سیاسی اسلام کا ٹائٹل لگا دیا اور گھر، مسجد اور مدرسہ تک محدود رہنے کو صحیح اسلام بنا کر پیش کیا۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ استعماری طاقتوں کے اہداف میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ اپنے علاوہ باقی ممالک کو ہمیشہ انتظار کی کیفیت میں رکھیں۔ ایسی کیفیت جس کے نتیجہ میں آج کا نوجوان معاش، شادی اور خواہشاتِ نفسانی کی فکر میں الجھا رہے اور اسے دیگر امور پر سوچنے اور کچھ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ بالآخر وہ ملکی پالیسیز اور سیاست سے لاتعلق ہو کر آسائشوں کے حصول کے لئے مشینی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگا۔ اسلام اس کے مقابلہ میں ”اقرا باسم ربک الذی خلق“ کہ کر فکر و آگہی کے آغاز اور علم و معرفت کے حصول کی دعوت دیتا ہے اور انسان کو خود پرستی کے خول سے نکال کر خدا پرستی تک لے جاتا ہے۔ دگرخواہی کے ذریعہ وہ دوسرے انسانوں کے مفادات کا ضامن بنتا ہے جبکہ استعمار کا بنایا ہوا نظام خود محوری اور ذاتی مفادات کے تحفظ کی ترغیب دیتا ہے۔