مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ کے سیاسی معاون علی باقری نے ایران نے رہبر معظم کی دوراندیش اور بابصیرت قیادت میں گذشتہ چار دہائیوں سے مشکلات کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ ایران نے "جنگ سے پرہیز" اور "جنگ سے خوف نہ کھانا" پر مبنی پر دو متضاد حکمت عملیوں کے تحت سخت حالات سے نبردآزمائی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے 1990 کی دہائی میں میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے جدوجہد شروع کی۔ آج تیس سال کے بعد جدید ترین امریکی اور صہیونی میزائل سسٹم اس کا مقابلہ کرنے سے ناتواں ہے۔
علی باقری نے کہا کہ جس طرح طوفان الاقصی سے صہیونی حکومت کے دفاعی نظام کی کمزوری کھل کر سامنے آگئی اسی طرح "وعدہ صادق" آپریشن سے امریکی ڈیفنس سسٹم کا بھرم ٹوٹ گیا۔ امریکہ اپنے دفاعی نظام کے بارے میں از سر نو غور کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کم از کم دفاعی ڈیٹرنس کو برقرار رکھنے کے لئے تمام سیاسی اور دفاعی اداروں کو باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ کسی بھی شعبے کو اپنی ذمہ داری میں لمحہ بھر بھی کوتاہی کی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر صہیونی حکومت کے دہشت گرد حملے کے بعد ایران کی جانب سے جوابی کاروائی سے ملک میں عوام اور رائے عامہ تقسیم ہونے کے بجائے قومی اتحاد کا بہترین نمونہ سامنے آیا ہے۔