مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ "حسین امیرعبداللہیان" نیویارک پہنچنے پر صحافیوں کی جانب سے سوالات کے انبار لگادئے گئے۔
جیسے، کیا ایران کی جانب سے آپریشن "وعدہ صادق" کے بعد امریکہ کی طرف سے آپ کو کوئی خاص پیغام ملا ہے؟
جب ایران نے اسرائیل کے خلاف جوابی کاروائی کا فیصلہ کیا تو ایران اور امریکہ کے درمیان کتنے پیغامات کا تبادلہ ہوا ؟ کیا تہران اور واشنگٹن کے درمیان صرف رسمی رابطہ چینل یعنی سوئٹزرلینڈ فعال تھا یا علاقائی ممالک کے ذرائع بھی فعال تھے؟
انہوں نے جواب میں کہا کہ کیونکہ اسرائیلی حکومت نے دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کو براہ راست دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنایا اور شام میں ہمارے سرکاری فوجی مشیر اسرائیل کی اس دہشت گردانہ کارروائی میں شہید ہوئے اور ہم نے ایک طویل عرصے تک سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے خطے میں کشیدگی سے اجتناب کیا اور ہم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے باقاعدہ مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل کو اسرائیلی حکومت کے ان اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ جب اسلامی جمہوریہ ایران نے یہ فیصلہ کیا کہ بین الاقوامی قانون اور جائز دفاع کے دائرے میں رہتے ہوئے اسرائیلی حکومت کو ضروری جواب دیا جائے اور ہم نے امریکہ کو آگاہ کر دیا۔
امیر عبداللہیان نے تاکید کی کہ ہم نے امریکیوں کو صاف اور واضح طور پر کہہ دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے اسرائیلی رجیم کو جواب دینے کا فیصلہ حتمی ہے اور آپریشن سے پہلے اور بعد میں بھی پیغامات کا تبادلہ ہوا۔
روں ہفتے کو ہم نے سفارتی ذرائع سے امریکہ کو صاف اور واضح طور پر بتانے کی کوشش کی کہ ہم خطے میں کشیدگی کو ہوا دینا نہیں چاہتے بلکہ یہ صیہونی حکومت کا طرز عمل ہے جو خطے میں کشیدگی کے پھیلاو کا بعث بن رہا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ آپریشن (وعدہ صادق) سے پہلے ہم نے امریکی فریق کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ ہم خطے میں امریکی اڈوں اور مفادات کو نشانہ نہیں بنائیں گے، مگر یہ کہ امریکہ صیہونی حکومت کی حمایت میں کوئی کارروائی کرے تو اس صورت میں ہمارا ردعمل شدید ہوگا۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ پیغامات کا تبادلہ خاص طور پر امریکی مفادات کے محافظ کے طور پر سوئس چینل اور سرکاری سفارتی چینلز کے ذریعے انجام پایا جس کا مقصد ایران کے اقدام کے بارے میں صحیح فہم پیدا کرنا تھا۔
نیویارک کے اپنے دورے کے مقصد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس جمعرات کو منعقد ہوگا، جس میں مغربی ایشیا (مشرق وسطی) میں ہونے والی صورت حال اور مسئلہ فلسطین پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات وزرائے خارجہ کی سطح پر ہوگی۔ خطے کے حالات اور غزہ کی ابلتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ ایک موقع ہے کہ خطے کے امن و سلامتی کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خیالات کو بیان کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کے موقع سے استفادہ کیا جائے۔
اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ اور بعض بین الاقوامی اداروں کے سینئر حکام سے غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی، وسیع پیمانے پر انسانی امداد کی ترسیل اور مسئلہ فلسطین اور اس کی سلامتی سے متعلق دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوگا۔
واضح رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک پہنچے ہیں۔ جہاں وہ جمعرات کو فلسطین پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے "مسئلہ فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ کی صورتحال" کے عنوان سے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس اجلاس میں شرکت اور خطاب کریں گے۔
ایرانی وزیرخارجہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سفیروں سے ملاقات کریں گے۔
اس کے علاوہ کئی دو طرفہ ملاقاتیں اور پریس انٹرویوز بھی ایجنڈے میں شامل ہیں۔
امیر عبداللہیان نیویارک روانگی سے قبل ترکی کے شہر استنبول میں رکے اور ایرانی قونصلیٹ جنرل کا دورہ کیا۔