مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: غاصب اسرائیل نے یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں پوری عمارت تباہ ہوگئی اور اس کے اندر موجود تمام افراد شہید ہوگئے۔
تاہم اسرائیلی جارحیت کے جواب میں ایران نے گزشتہ رات اس رجیم کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں پر ڈرونز اور میزائلوں سے حملہ کیا۔
مہر نیوز کے نمائندے کا ترکی کے تجربہ کار سیاست دان اور CHP کے سینئر رکن عثمان فاروق لوگو کے ساتھ حالیہ ایران اسرائیل کشیدگی کے بارے میں انٹرویو کا متن درج ذیل ہے:
مہر نیوز: مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیل پر ایران کے حملوں کو جارحیت قرار دینے کی کوششوں کے باوجود، آپ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد پر شام میں ایران کے قونصل خانے پر حملے سمیت اسرائیلی جرائم میں اضافے پر ایران کے ردعمل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ترک سیاسی رہنما: شام میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کا حملہ بین الاقوامی قوانین اور سفارتی اور قونصلر مشنز پر ویانا کنونشنز کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ حملہ فلسطینی شہریوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کا تسلسل تھا۔ ایران کا ردعمل ایک حسابی، نپاتلا اور متناسب تھا۔ اسرائیل کے حملے کا جواب دیتے ہوئے ایران نے کہا کہ ابھی کے لیے اتنا کافی ہے۔ اگر تم نے ایران کے خلاف مزید حماقت کی تو ہمارا ردعمل بہت خوف ناک ہو گا!" ایران نے جوابی کارروائی کی لیکن آگے بڑھنے سے گریز کیا - بہت ہوشیار اور محتاط!
مہر نیوز: ایران نے ہسپتالوں، سکولوں وغیرہ جیسے شہری مقامات کو نشانہ نہیں بنایا لیکن اسرائیل نے غزہ میں شہریوں کے خلاف وحشیانہ کارروائی کی۔ ان دو مختلف رویوں کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
غزہ میں اسرائیل کی کارروائیاں ناقابل دفاع ہیں اور اسے اپنے دفاع کے جائز اقدام کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ اسرائیل غلط راستے پر گامزن ہے، اپنے طویل مدتی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
مہر نیوز: ایران کی ڈیٹرنس پاور کو بڑھانے اور اسرائیل کو کمزور کرنے میں ایران کے حالیہ حملے کا کیا کردار ہو سکتا ہے؟
ایران نے واضح کیا کہ وہ ایرانی مفادات کے خلاف حملوں کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑے گا۔ اسرائیل کو اس پیغام پر دھیان دینا چاہیے۔