مہر نیوز کے مطابق، رہبر معظم انقلاب کے بین الاقوامی امور کے مشیر علی اکبر ولایتی نے المیادین ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے خطے کی صورت حال گفتگو کی ہے جس کا مکمل متن حسب ذیل ہے:
گزشتہ چند دنوں میں، یورپی یونین اور امریکہ کی برسلز میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے فریم ورک کے اندر ملاقات ہوئی، جس میں جنوبی قفقاز (جارجیا، آرمینیا اور آذربائیجان کو گھیرے ہوئے خطہ جنوب سے ایران اور ترکی اور شمال سے روس) ۔میں حملے اور غیر قانونی مداخلت کے لیے ایک نیا منصوبہ ترتیب دینے کے بارے میں ایک نئے فیصلے پر اتفاق کیا گیا۔ وہ اس حساس خطے میں سکیورٹی کے بہانے مداخلت کرنا چاہتے ہیں، ان کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروہ صرف دنیا کے حساس حصوں میں کشیدگی پیدا کرنے اور اس خطے کی سلامتی اور آزادی کی قیمت پر فوجی موجودگی کا بہانہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
جنوبی قفقاز کے علاقے کی حساسیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی باوقار تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے قریبی ریاستوں کے حقوق اور خصوصیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس خطے میں سلامتی اور امن کو برقرار رکھنے میں ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے۔
نیٹو کا نیا منصوبہ اور اس کی تشکیل امریکی اقدام پر مبنی ہے جس کے لیے خطے میں کچھ ثالثوں کی مدد درکار ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ تقریباً دو سال قبل ایک ایسی ہی یکطرفہ تجویز دی گئی تھی جب وہ دعویٰ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ جنوبی قفقاز کے ممالک کے درمیان توانائی کی منتقلی کے لیے مواصلات کی سہولت فراہم کر رہے ہیں حالانکہ اس منصوبے کے پیچھے دیگر استحصالی مقاصد کارفرما تھے۔
اس طرح کی حکمت عملی پر عمل درآمد نہ صرف خطے کی قوموں کی قیمت پر تباہ کن نتائج کا باعث بنے گا بلکہ ان کی تاریخی سرحدوں کے کٹاؤ اور اندرونی تنازعات کو جنم دے گا۔ اس صورت حال سے امریکہ کی زیر قیادت مغربی طاقتیں خطے میں مداخلت کے بہانے سے فائدہ اٹھائے گی۔ نتیجتاً، یہ جنوبی قفقاز کی ریاستوں کے درمیان بھڑکتی آگ کو ہوا دے کر پڑوسی ریاستوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دے گا اور پھر تنازعات کے حل کی آڑ میں مغربی طاقتوں کے توسیع پسندانہ ایجنڈوں کی راہ ہموار کرے گا۔
واضح رہے کہ نیٹو میں اعلیٰ ترین فیصلہ سازوں کی حیثیت سے امریکیوں کا مقصد اس عسکری تنظیم کی افواج کو بحیرہ کیسپین اور وسطی ایشیا میں توانائی کے وسائل حاصل کرنے کے لیے جنوبی روس یا شمالی ایران میں تعینات کرنا تھا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹھوس موقف کے باعث یہ منصوبہ اپنے آغاز میں ہی ناکامی سے دوچار ہوا۔