مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف نے نکاراگوا کی جانب سے اسرائیل کی فوجی اور سیاسی حمایت کے ذریعے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں مبینہ طور پر سہولت کاری کے الزام میں جرمنی کے خلاف عارضی اقدامات اختیار کرنے کی درخواست کے بارے میں پیر کی صبح سماعت شروع کی۔
نکاراگوا کی قانونی ٹیم کے نمائندے نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے اجلاس میں کہا کہ جرمنی غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار ہے، کیونکہ یہ ملک نسل کشی کے امکان کے بارے میں جاننے کے باوجود اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے مزید کہا: گزشتہ مہینوں کے دوران اسرائیل کے لیے جرمنی کی فوجی امداد میں دس گنا اضافہ ہوا ہے اور جرمن حکومت نے 2023 میں اسرائیل کو 326 ملین یورو مالیت کا فوجی سازوسامان برآمد کیا ہے۔ تاہم، اپنے دفاع کی دلیل کو نسل کشی کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
نکاراگوا کے نمائندے نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے درخواست کی کہ وہ جرمنی کو فلسطینی عوام کی نسل کشی میں اسرائیل کی حمایت بند کرنے کا حکم دے، اس وقت فلسطینی جدید تاریخ کے سب سے تباہ کن فوجی مظالم کا شکار ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا: اسرائیل نے غزہ جنگ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ جب کہ برلن نے غزہ کی پٹی میں نسل کشی کے امکان کے بارے میں جانتے ہوئے بھی تل ابیب کو ہتھیاروں کی مدد جاری رکھی ہے اور جرمن فوجی کمپنیوں نے اس جنگ سے بہت زیادہ منافع کمایا ہے۔ جب کہ جرمنی کو نسل کشی کو روکنے اور بین الاقوامی قوانین کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے اپنے فرائض کو پورا کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے سابقہ بیان کے مطابق، 7 اکتوبر کو جو کچھ ہوا وہ اچانک نہیں ہوا بلکہ فلسطین میں دہائیوں سے نسل کشی ہو رہی ہے اور ممالک کو اس نسل کشی کے مرتکب افراد کی حمایت کرکے اس میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔
نکاراگوا کی قانونی ٹیم کے نمائندے نے عالمی عدالت انصاف کے اجلاس میں کہا: فلسطینی عوام کو ناجائز قبضے کے خلاف خود ارادیت اور اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ غزہ میں عام شہریوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے اور باقی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔