مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ صہیونی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے پیر کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر میزائل حملہ کیا جس میں جنرل زاہدی سمیت سپاہ پاسداران کے کئی فوجی مشیر شہید ہوگئے۔
صہیونی حکومت کے حملے اور اس کے بعد پیش آنے والی صورتحال کے بارے میں لبنانی مبصر حکم امہز نے مہر نیوز سے خصوصی گفتگو کی اور اسرائیلی حملے کو دہشت گردی قرار دیا۔ ان کی گفتگو کا متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
مہر نیوز: صہیونی حکومت نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر دہشت گرد حملہ کیا؛آپ کی نظر میں اسرائیل کا اہم ترین ہدف کیا تھا؟
حکم امہز: ایرانی سفارت خانے پر حملے کے کئی اہداف ہیں جن میں سے اہم ترین نتن یاہو کی حکومت کو فائدہ پہنچانا تھا۔ نتن یاہو جنگ کا دائرہ بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ ایران اور مقاومت جنگ کو توسیع دینا نہیں چاہتے۔ جنگ صہیونی حکومت کے فائدے میں ہے۔ لیکن اس موقع پر اہم سوال یہ ہے کہ ایران اور مقاومت کیا کشیدگی کے لئے تیار ہیں یا نہیں ؟یقینا تیار ہیں چنانچہ سید حسن نصراللہ نے کئی مرتبہ اعلان کیا کہ ہم پر جنگ تھوپنے کی کوشش کی گئی تو مقاومت اس کے لئے مکمل تیار ہے۔ موجودہ حالات مقاومت کے حق میں ہیں جس کا اسرائیل کبھی خواہاں نہیں رہا ہے۔
دوسری طرف غزہ کے خلاف جنگ جاری ہے اور اس میں اسرائیل کو کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہوا ہے اسی لئے امریکہ اس بحران کا حل نکالنا چاہتا ہے۔ نتن یاہو جنگ سے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ طوفان الاقصی کے بعد کے حالات اور عدالتی اصلاحات کے حوالے سے مقدمہ سے فرار کرنے کے لئے وہ جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
مہر نیوز: بین الاقوامی قوانین کی رو سے ایرانی سفارت خانے پر حملے کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟ کیا بین الاقوامی ادارے صہیونی حکومت کے خلاف کوئی اقدامات کرسکتے ہیں؟
حکم امہز: ظاہر ہے ایرانی سفارت خانے پر حملہ تمام بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اسی کے تناظر میں اقوام متحدہ کو اسرائیل کے خلاف سخت اقدام کرنا چاہئے۔ لیکن چونکہ عالمی ادارے پر امریکہ اور اسرائیل کا کنٹرول ہے اسی لئے میری نظر میں اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔عالمی ممالک نے اس حملے کی مذمت کی ہے تاہم امریکہ نے ابھی تک مذمت میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق اور جمہوریت کا ڈنڈورا پیٹنے والے بعض یورپی ممالک نے بھی دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کی مذمت نہیں کی ہے حالانکہ ان ممالک کی جانب سے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے حوالے سے حساسیت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارے بھی کوئی اقدام نہیں کریں گے کیونکہ ان کو صرف طاقت کی زبان سمجھ آتی ہے اور جس کے پاس طاقت ہے وہی اپنا ہدف حاصل کرتا ہے۔
مہر نیوز: ایران نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہمیشہ مقاومت کی حمایت کی ہے اور مقاومتی تنظیمیں اپنی کوششوں سے بڑے اہداف حاصل کرچکی ہیں اور مغرب اور صہیونی حکومت کو شکست کا تلخ مزا چکھاچکی ہے؛ آپ کی نظر میں کیا ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل نے مقاومت کے ہاتھوں ہونے والی شکست کا بدلہ لینے کا حملہ کیا ہے؟
حکم امہز: فطری طور پر ایرانی سفارت خانے پر حملے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان وسیع جنگ جاری ہے۔ ایران نے فلسطین، شام، یمن ، عراق اور لبنان میں مقاومت کی حمایت کی ہے لہذا اسرائیل کو ہونے والی شکستوں کی وجہ ایران کی مقاومت کے لئے حمایت ہے۔
اسرائیل نے 1967 میں چھے دنوں کے اندر سات عرب ممالک کو شکست دی اور ان کی زمین پر قبضہ کرلیا۔ موجودہ جنگ میں چھے مہینے گزرنے کے باوجود غزہ میں کوئی بھی ہدف حاصل نہ کرسکا۔ کئی مہینوں سے محاصرے اور اسرائیلی ڈرون طیاروں کی مکمل نگرانی میں ہونے کے باوجود اسرائیل مکمل ناکام ہوا ہے۔اسرائیل کو بخوبی علم ہے کہ اگر ایران کی حمایت نہ ہوتی تو فلسطین اتنا طاقتور نہ ہوتا۔ ایران نے اس حکمت عملی کے تحت اسرائیل کے خلاف بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
اسرائیل نے اپنی تشکیل کے آغاز سے ہی نیل سے فرات تک قبضے میں لینے کا منصوبہ اپنی پالیسی کا حصہ بنارکھا ہے لیکن اسلامی انقلاب کے رونما ہونے کے بعد اسرائیل کا یہ خواب ادھورا رہ گیا ہے اور صہیونیوں کی تمنا پوری نہیں ہوسکی ہے۔
مہر نیوز: آپ کی نظر میں شام میں سفارت خانے پر حملے کے بعد ایران کا جواب کیا ہوسکتا ہے؟
حکم امہز: بین الاقوامی قوانین کی وجہ سے ایران کی جانب سے کسی بھی ملک کے اندر سفارت خانے یا قونصل خانے پر حملہ بعید لگتا ہے لیکن ایران یقینی طور پر جواب دے گا۔ اسرائیل نے ایران کے سفارت خانے پر حملہ کرکے اس کی خودمختاری کو پامال کیا ہے کیونکہ سفارت خانہ کسی بھی ملک کا حصہ ہوتا ہے لہذا ایران اسرائیل کی اس گستاخی کو معاف نہیں کرے گا اور ہر حال میں جواب دے گا۔
ایران کو جواب امریکہ اور اسرائیل دونوں کو پیغام ہوگا کیونکہ اسرائیل امریکی حمایت کے بغیر ایسی کاروائی کی جرائت نہیں رکھتا ہے لہذا یران کا جواب سخت اور دندان شکن ہوگا لیکن اس سے خطے میں جنگ کی آگ مزید نہیں بھڑکے گی۔ ایران حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب جواب ضرور دے گا۔